پہلے تو ان دو بجلیوں کی سن لیں جو حکومت پر حالیہ دنوں گری ہیں۔آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی کو سیاسی حقیقت قرار دیا اور تین ارب ڈالر سٹینڈ بائی قرض کے سلسلے میں پی ٹی آئی قیادت سے مشاورت کی، میرا اندازی ہے یہ مشاورت صرف اتنی نہیں تھی،اگر ملک کا اگلا وزیر اعظم کوئی مالیاتی مینجر آ گیا تو ممکن ہے بات کسی اور طرف جا نکلے۔دوسری بجلی تب گری جب احسن اقبال نے بنا سوچے سمجھے یہ کہہ دیا کہ دوست ملک چین پی ٹی آئی کی حکومت نہیں چاہتا تھا۔کل ہی چین نے اس بات کی تردید کر دی ہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ کیا ایسے لوگوں کو وزارت جیسی ذمہ داری دی جانی چاہئے جو پاکستان کے خارجہ تعلقات کی نزاکت کا ادراک نہیں رکھتے ۔احسن اقبال نے دو عشروں میں اپنے تشخص کو زوال کی طرف دھکیلا ہے ۔ آج بات تو صادق سنجرانی کی مستعدی کی کرنا تھی کہ صدر مملکت حج سے واپس نہ آتے تو یقین کریں اب تک چیئرمین سینٹ نے لاہور میں کھڑا پانی نکالنے کا قانون بھی منظور کر لینا تھا۔صدر مملکت کی ملک میں عدم موجودگی کی صورت میں چیئرمین سینٹ قائم مقام صدر ہوتا ہے ۔چند روز کی قائم مقامی صدارت میں جناب صادق سنجرانی نے وہ کارکردگی دکھائی ہے کہ سب کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ صادق سنجرانی ایک ہیرا ہیں۔جوں جوں ان کی تراش ہو رہی ہے روشنی آنکھیں چندھیانے لگی ہے۔کسی مہرباں نے آ کے ان کی زندگی سجا دی ۔اسی مہربان کی مہربانی سے سینٹ کے رکن بنے‘ پھر چیئرمین بنے۔جناب یوسف رضا گیلانی دیواروں سے ٹکریں مارتے رہے لیکن وہ دروازہ انہیں نظر نہ آیا جہاں سے صادق سنجرانی ان ہو گئے ۔پیپلز پارٹی سے بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کی‘ پھر جانے کب پی ٹی آئی کے خاص آدمی بن گئے۔ اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعد سینٹ میں ان کا رویہ بدل گیا۔پی ٹی آئی کے سینیٹرز کو ڈانٹتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ کس کے آدمی ہیں۔بلوچستان کا ڈومیسائل کافی نہیں۔ یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ کیا کوئی بلوچستان کی نمائندگی کر رہا ہے یا نہیں۔خیر سے صادق سنجرانی تیزی سے منزلیں طے کر رہے ہیں۔کئی لوگوں کا خیال ہے انہیں اگلی بار صدر مملکت کے منصب پر فائز کرنے پر مشاورت ہو رہی ہے۔ صادق سنجرانی نے 26جون کو قائم مقام صدر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اسی روز انہوں نے الیکشن ایکٹ بل کی منظوری دیدی۔ اس بل میں نااہلی کی مدت 5سال متعین کی گئی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ اس بل سے ایک شخصیت کو فائدہ پہنچایا گیا ہے ۔ اسی بل میں انتخابات کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن پاکستان کو منتقل کیا گیا ہے۔ 5جولائی کو قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے سراج الدین عزیز کو بنکنگ محتسب مقررکرنے کی منظوری دی۔3جولائی کو قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے دنیا کے تمام ممالک کی پارلیمنٹوں کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا کہ وہ قرآن پاک کی توہین کی مذمت کریں۔27جون کو قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے بجٹ 2023-24ء کی منظوری دیدی۔ بطور قائم مقام صدر جناب صادق سنجرانی نے 5جون کو سپریم کورٹ کے ججوں کی تنخواہوں میں 20فیصد اضافے کی منظوری دی۔نئی شرح کے مطابق چیف جسٹس کی ماہانہ تنخواہ 12لاکھ جبکہ ججوں کی تنخواہ 11لاکھ روپے ماہانہ ہو گی۔ قائم مقام صدر نے ایک ہفتے کی قائم مقامی میں نیب کا ترمیمی آرڈیننس منظور کیا۔اس آرڈی ننس کے تحت چیئرمین نیب کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے۔اسے اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص تفتیش میں تعاون نہ کرے تو اس کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کر سکتا ہے۔ اسی طرح گرفتار شخص کو 14کی بجائے 30دن نیب کی حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔اس سے چند روز قبل ہی جناب صادق سنجرانی اس مراعاتی بل کا دفاع کرتے نظر آئے جس میں ماضی‘ حال اور مستقبل کے چیئرمین سینٹ کے عہدہ پر فائز رہنے والوں پر غریب ریاست کے خزانے نچھاور کر دیے گئے۔ڈپٹی چیئرمین اور سینٹ کے ممبران کے لئے بھی مراعات میں اضافہ کر دیا گیا ۔صادق سنجرانی کا کہنا ہے کہ ایسا پہلے سے ہو رہا ہے انہوں نے صرف پوشیدہ کام کو ریگولرائز کیا ہے۔۔ اشرافیہ کی مراعات سے متعلق گزشتہ دنوں خبر آئی کہ ارکان پارلیمنٹ کو موٹر وے پر سفر کے دوران ٹول ٹیکس سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔میرے سامنے اسمبلی میں مختلف ذمہ داریوں کی انجام دہی پر مراعات کا سرکاری ریکارڈ پڑا ہے۔ صرف پنجاب کی اسمبلی کو دیکھیں تو سپیشل اسسٹنٹس کو ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ ملے گی۔ہر سپیشل اسسٹنٹ کو ماہانہ 15ہزار الائونس ملے گا۔ایک کار دی جائے گی۔سرکاری رہائش ملے گی‘ سفری الائونس ‘ ہوائی سفر‘ کمرشل فلائٹ پر بیگم سمیت آنے جانے کی مفت سہولت‘ ریل کا مفت سفر‘ دوران ہوائی سفر اگر حادثہ پیش آ جائے تو سپیشل اسسٹنٹ صاحب کو زخمی ہونے یا موت کی صورت میں معاوضہ ملے گا۔دوران ذمہ داری ڈیلی الائونس ملے گا‘ غیر ملکی سفر فرسٹ کلاس سے کرنے کا مجاز ہو گا۔سپیشل اسسٹنٹ کو اپنے لئے‘ والدین کے لئے‘ شریک حیات کے لئے‘ سگے اور سوتیلے بچوں کے لئے تمام طبی سہولیات مفت میسر ہوں گی۔اسے ذاتی سٹاف سرکاری خزانے سے رکھنے کی اجازت ہو گی۔ٹیلی فون‘ بجلی اور دیگر بل سرکار جمع کرائے گی۔ اس کے بعد ایڈوائزر‘ پارلیمانی سیکرٹریز‘ وزراء کرام‘سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر‘ ممبران اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کی مراعات ہیں۔ سینٹ کے کل ارکان کی تعداد 100ہے‘ قومی اسمبلی کے 342ممبران‘ پنجاب اسمبلی کی 371نشستیں‘ بلوچستان کی 65نشستیں ‘ سندھ اسمبلی کی 168نشستیں‘ خیبر پختونخواہ 145 نشستیں ہیں۔درجنوں غیر منتخب مشیر، معاون خصوصی ،سینکڑوں اداروں کی چئیرمین شپ جو سیاسی حکومتیں بانٹتی ہیں۔کئی طرح کے کوٹے اور صوابدیدی اختیارات ۔یہ کل ملا کر اتنے تو بن ہی جاتے ہیں کہ میرا اور آپ کا خون خشک کر سکیں۔میری تجویز ہے کہ حکمرانی کی ہر شکل میں ہم پر مسلط افراد کی تجہیز و تکفین کا خرچ بھی عوام پر ڈال دیا جائے ۔