گزشتہ دنوں اخبار میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ پنجاب حکومت نے صوبہ بھر میں مرحلہ وار چنگ جی رکشہ پر پابندی کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے محمکہ ٹرانسپورٹ کو ہدایات جاری کر دیں ہیں۔ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ابراہیم حسن مراد کی ہدایت پر چنگ چی رکشوں کو تیس دن کی مہلت دی گئی ہے اور پہلے مرحلے میں غیر منظور شدہ رکشوں کو بند کیا جائے گا۔ پہلے بڑے شہروں اور پھر چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں انکی بندش کی جائے گی۔ میں ٹرانسپورٹ سسٹم اور اس میں درکار تبدیلیوں کا تذکرہ گاہے بگاہے اپنے کالم میں کرتا رہتا ہوں اور بلاشبہ پاکستانی ٹرانسپورٹ سسٹم میں بہت بڑی اور نمایاں تبدیلیاں کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ضمن میں،میں پنجاب حکومت کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتا ہوں کیونکہ ہمارے ہاں ماحولیاتی آلودگی اور ٹرانسپورٹ سسٹم کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔لاہور جیسے بڑے اور گنجان آباد شہر کو ہی یکھ لیجیے جہاں سموگ ایک سنگین اور جان لیوا مسئلہ بن چکا ہے۔سموگ کے بڑھنے میں ٹریفک ایک بڑا ذریعہ ہے۔سڑکوں پر بے پناہ رش،گاڑیوں، بسوں ، موٹر سائیکلز کا اژدھام اور چنگ چی رکشوں کی بھرمار اور دھواں چھوڑتی ٹریفک! یہ تمام عوامل سموگ کی سطح کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ نیز ٹریفک حادثات میں ایک بڑی وجہ یہی رکشے اور موٹر سائیکل ہیں جنکی تیز رفتاری اور بے ترتیبی بہت سے سنگین حادثات کا باعث بنتی ہیں اور ہر سال ہزاروں افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ چنگ چی رکشہ پر پابندی ایک احسن اقدام ہے لیکن اس کے نتیجے میں بیروزگار ہونے والے رکشہ ڈرائیورز کو متبادل روزگار فراہم کرنا حکومت پنجاب کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں غربت اور بیروزگاری بہت بڑے مسائل ہیں اور ہر آنے والی حکومت بے شمار دعوؤں کے باوجود ان مسائل پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایک نظام کو ٹھیک کرنے کے چکر میں دوسرا بگاڑ دیتے ہیں۔لوگوں کو روزگار کے بہتر اور جدید ذرائع فراہم کرنے کیلیے بھی ایک مربوط اور منظم پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں یہی سوال درپیش ہے کہ کیا حکومت پنجاب نے رکشہ ڈرائیورز کے لیے کوئی متبادل روزگار ڈھونڈ لیا ہے؟ جن غریب دیہاڑی دار رکشہ چلانے والوں سے انکا ذریعہ معاش لیا جا رہا ہے کیا اس کا متبادل بھی موجود ہے؟ اس ضمن میں پنجاب حکومت نے آئندہ چنگ چی رکشوں کی مینو فیکچرنگ پر بھی پابندی عائد کر دی ہے نیز چنگ چی رکشہ کی رجسٹریشن کیساتھ مینو فیکچرنگ کمپنیوں کو ریگولائز کیا جائے گا۔ یہ بھی ایک اہم پیش رفت ہے کہ اس طرح رجسٹرڈ رکشوں کی تعداد کا صحیح تعین کرنا ممکن ہوگا۔ نیز غیر رجسٹرڈ رکشوں کی پابندی سے چوری،ڈکیتی اور دیگر جرائم میں استعمال ہونے کا امکان بھی کم ہو جائے گا۔ کیونکہ جرائم پیشہ افراد کے لیے غیر رجسٹرڈ گاڑیوں اور رکشوں کا استعمال بہت عام اور آسان ہے۔ اس وقت لاہور کی سڑکوں پر چلنے والے چنگ چی رکشوں میں 80 فیصد غیر رجسٹرڈ ہیں۔ بیشتر افراد اور ڈرائیور حضرات نے حکومت کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ رجسٹرڈ رکشوں کے تعین سے صرف ذمہ دار افراد ہی یہ رکشہ چلا سکیں گے اور ٹریفک حادثات میں بھی نمایاں کمی ہوگی۔ نیز ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور رکشہ کی ظاہری جانچ پڑتال اور مینٹیننس کا معیار بھی بہتر ہوگا۔ نیز ڈرائیونگ کا معیار بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ کیونکہ ہم اپنے ارد گرد یہ دیکھتے ہیں کہ چنگ چی رکشوں پر ضرورت سے زائد سواریوں کو بٹھانا اور گنجائش سے دوگنا وزن اور سامان رکھنا عام سی بات بن چکی ہے۔ ڈرائیور حضرات منہ مانگے کرایوں کے علاوہ من مانی کرتے ہوئے ایک ہی رکشہ پر دس سے بارہ لوگوں کو سوار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اور یہی غفلت قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔ مقررہ مدت کے بعد حکومت پنجاب نے رجسٹریشن نہ کروانے والوں کیخلاف سخت اور حتمی کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس روزگار سے وابستہ بہت سے افراد پریشان بھی ہیں کہ رکشہ ہی انکا واحد ذریعہ معاش ہے۔ اگرچہ صوبائی وزیرِ ٹرانسپورٹ نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم ایسے ڈرائیورز / بیروزگار افراد کیلیے سوفٹ لون متعارف کروائیں گے۔ یعنی وہ لوگ جو محض بیس سے تیس ہزار بچانے کی خاطر غیر قانونی رکشہ چلا رہے ہیں۔ اس سافٹ لون / قرضے سے حکومت انہیں تھری ویلر رکشہ فراہم کرے گی جس سے وہ اپنا روزگار اور ذریعہ معاش کو جاری رکھ سکیں گے۔ نیز اس فیصلے کا اطلاق ان رکشوں پر کیا جائے گا جو باقاعدہ کسی رجسٹرڈ کمپنی میں بننے کی بجائے عام گلی محلے کی دکان پر بنائے جاتے ہیں۔ بنانے والے ایک ویلڈنگ مشین کی مدد سے موٹر سائیکل کا پچھلا پہیہ نکال کر ایک گاڑی جوڑ دیتے ہیں جس پر چار سے پانچ افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن در حقیقت ایسے رکشے / تھری ویلرز شہر کی سڑکوں پر انتہائی تیز رفتاری سے چلائے جاتے ہیں۔ ان پر ضرورت سے زائد سواریوں اور بوجھ سے اگلا حصہ پچھلے سے الگ ہو جاتا ہے اور سنگین حادثات کا باعث بنتا ہے۔ حکومت پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد پنجاب میں تقریباً ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔ جو نہ رجسٹرڈ ہیں ، نہ انکا چالان ہو سکتا ہے اور نہ یہ ریکارڈ میں آ رہے ہیں لہذا انکے خلاف حتمی کاروائی اب ناگزیر ہو چکی ہے۔ پنجاب بھر میں رکشوں کی غیر قانونی اور غیر معیاری تعمیر کو روکنے کیلئے ان دکانوں کو حکومت نے سیل کردیا ہے جہاں اپنی مدد آپ کے تحت ایسے رکشے بنائے جا رہے ہیں۔ نیز اب تمام رکشہ ڈرائیورز کیلئے اپنی گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔ یعنی رجسٹریشن کے بعد ہر چنگ چی رکشہ کو چلانے کیلئے ضروری ہے کہ اس کی مجموعی حالت بہترین اور معیاری ہو۔رکشہ کا انجن دھواں چھوڑنے والا نہ ہو، بریکس اور سسپینشن صحیح سلامت ہوں، ڈرائیور کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہو اور رکشہ سواریوں کے ساتھ ڈرائیور کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہو۔ ان تمام چیزوں کی جانچ پڑتال کے بعد حکومت ڈرائیور حضرات کو رجسٹریشن جاری کرئے گی۔ حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ یہ سخت قدم ہم نے لوگوں کی بھلائی کے لیے اٹھایا ہے۔ اب ہم انہیں ریگولائز بھی کریں گے اور سیفٹی اسٹینڈرڈ پر بھی لائیں گے لہذا اس ضمن میں عوام ہمارا ساتھ دیں اور پنجاب بھر میں مرحلہ وار ٹریفک کے نظام کو بہتر کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔