اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ شروع ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد برگرز کی مشہورِ امریکی فوڈ چین نے انسٹاگرام پر اپنے بزنس پیج پر فخریہ پوسٹ شیئر کی کہ ہم ہر روز چار ہزار اسرائیلی فوجیوں کو کھانا فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی سہولت کے لیے ہم نے پانچ نئے ریسٹورنٹ کھولے ہیں جو اسرائیل کے فوجیوں کی خدمت پر مامور ہیں۔ اس پوسٹ کے انسٹاگرام پر لگنے کے بعد پوری دنیا میں اس کا ایک رد عمل ظاہر ہوا۔ ہر انسانیت پسند شخص نے سوشل میڈیا پر ان خیالات کا اظہار کیا کہ ہم اس امریکی فوڈ چین کا بائیکاٹ کرکے فلسطینی عوام کی خون ریزی کے خلاف عملی احتجاج کرسکتے ہیں۔امریکی اور مغربی مصنوعات سے ہونے والی آمدنی سے ہی وہ اسلحہ خریدا جا رہا ہے جو معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں استعمال ہوتا ہے۔دوسرے معنوں میں اگر اس فوڈ چین سے ہم کھانا کھاتے رہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم بھی فلسطینیوں کی قتل و غارت میں شریک ہیں۔ اس کے بعد دنیا کے کتنے ہی ملکوں میں اس امریکی فوڈ چین کا بائیکاٹ شروع ہوا۔اس کے ساتھ ہی ایسی مصنوعات کی فہرستیں سوشل میڈیا پر جاری ہونے لگیں جو امریکی اور مغربی ملکوں کی تیار کردہ تھیں۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور وہ ملک جو فلسطینی خونریزی کا ساتھ دے رہا ہے انسانیت پرست لوگ وہاں کی بنائی ہوئی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے لیے متحرک نظر آئے۔بائیکاٹ کا یہ دائرہ پیزا،برگر اور کولا ڈرنکس کی فوڈ چین سے نکل کر ضروریات زندگی کی دوسری مصنوعات تک پھیلتا چلا گیا۔اس وقت دنیا بھر میں امریکہ کی مشہور برگر پیزا فوڈ چینز اورکولا ڈرنکس کا مکمل طور پر بائیکاٹ کیا گیا ہے۔کسی بھی پروڈکٹ کا بائیکاٹ دراصل عوامی طاقت کا اظہار ہے۔ اگر یہ بائیکاٹ سرکاری سرپرستی میں ہو تو اس کا اثر یقینا زیادہ ہوتا ہے لیکن اگر سرکاری سرپرستی نہ حاصل ہو تو بھی صرف عوامی طاقت سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ترکیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں کے عوامی ردعمل کی وجہ سے سپر سٹورز میں مغربی اور امریکی مصنوعات ریکس سے ہٹانا پڑیں حالانکہ عوامی رد عمل کے برعکس ترکیہ حکومت اسرائیل کے ساتھ کئی طرح کے معاہدوں میں شریک ہے اس کے بڑے انڈسٹریل ادارے بھی اسرائیل کے ساتھ کئی طرح کی معاشی سرگرمیوں میں حصہ دار ہیں۔ بنگلہ دیش انڈونیشیا ملائشیا اردن شام ایسے ملک ہیں جہاں پر نہ صرف فوڈ چین کا اور کولا ڈرنکس کا بائیکاٹ ہوا بلکہ ضروریات زندگی کی دیگر مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا ۔ملائشیا میں لوگوں کو بائیکاٹ کی طرف راغب کرنے کے لیے بالکل ایک نیا انداز اختیار کیا گیا۔ وہ تمام پروڈکٹس یا مصنوعات جن کا تعلق امریکہ اسرائیل یا کسی بھی اس مغربی ملک سے بنتا ہے جو اس وقت اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کو سپورٹ کر رہا ہے، ان کی بنی ہوئی مصنوعات کے ریک پر شہید اور زخمی فلسطینی بچوں کی لہو لہان تصاویر چسپاں کردیں۔ان تصاویر کے ساتھ بائیکاٹ کا کوئی سلوگن نہیں لکھا گیا تھا۔مگر فلسطینی بچوں کی یہ لہو لہان تصویریں ہزار لفظوں پر بھاری تھیں۔ کوئی بھی خریدار جب ان مصنوعات کی طرف ہاتھ بڑھاتا تو سامنے لہو لہان فلسطینی بچے کی تصویر اس کو پکار پکار کر کہتی ہے کہ ان مصنوعات کو خریدنے کا مطلب یہ ہے کہ تم میرے قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہو۔ انڈونیشیا سب سے زیادہ آبادی والا مسلمان ملک ہے۔ کئی دوسرے مسلمان ملکوں کے برعکس انڈونیشیا نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈونیشیا میں لوگوں نے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے امریکہ کی مشہور برانڈ کی کافی اور برگر کا مکمل بائیکاٹ کیا ۔دوپہر اور رات کے اوقات میں جن برانڈز پر اتنا رش ہوتا تھا کہ وہاں پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی آج کل وہ ویران پڑے ہیں۔ اگر چہ مقامی انتظامیہ نے کئی بار اس چیز کا پرچار کیا کہ ان کے کاروبار کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ، ان کا کاروبار مقامی انتظامیہ کے زیر اثر ہے مگر اس کے باوجود لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ رائٹر نیوز میڈیا کی ایک رپورٹ پڑھ رہی تھی جس میں لکھا تھا کہ شام اور اردن میں مغربی فوڈ چین کے بڑے بڑے آؤٹ لیٹس خالی پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے ورکرز شام کو روز خالی میزوں کو صاف کرتے اور گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں۔مصر کے لوگوں کو قانون جلسے جلوس سے روکتا ہے چونکہ وہاں غزہ کے حق میں لوگ باہر نہیں نکل سکے تو انہوں نے بھرپور بائیکاٹ کر کے فلسطین کے لوگوں کو سپورٹ کیا۔امریکی اور مغربی مصنوعات کے بائیکاٹ کا آغاز پاکستان میں بھی ہو چکا ہے۔اس بائیکاٹ کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پاکستان مارکہ مصنوعات کا استعمال کریں۔چیز کے معیار پر سمجھوتہ کر لیں لیکن اس پر سمجھوتا نہ کریں کہ آپ کا دیا ہوا پیسہ کہیں نہ کہیں اس یہودی ایجنڈے کو سپورٹ کر رہا ہے جس ایجنڈے کے تحت معصوم فلسطینی بچوں کے گلے کاٹے جا رہے ہیں۔ہمیں اپنا حساب تو رب کے ہاں دینا ہوگا ،جو کچھ خلوص سے کیا جا سکتا ہے وہ ضرور کرنا چاہیے۔ایک عجیب چیز سامنے آئی کہ ضروریات زندگی کی بیشتر چیزیں ہمارے ہاں پاکستان میڈ نہیں ہیں بلکہ وہ امریکی ، یہودی اور مغربی ملکوں کے بنائے ہوئے برانڈ ہیں جو لوکل یا مقامی طور پر کام کررہے ہیں۔ بچوں کے چپس، بسکٹ سے لے کر خواتین کے میک اپ اور بال رنگنے کے خضاب تک سب کچھ مغربی اور امریکی کمپنیوں کا بنایا ہوا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان ملک یہودی اور مغربی کمپنیوں کے لیے سیلز مین ہی پیدا کر رہے ہیں ؟ یہودی اور امریکی مصنوعات جن کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے اگر ان کے بہترین متبادل پاکستان میں تیار کیے جائیں تو لوگ یقینا خریدیں گے۔ بچوں میں بے حد مقبول چپس کا ایک برانڈ بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں اچھا آلو وافر پیدا ہوتا ہے۔یہ وقت غنیمت ہے کوئی صنعت کار آگے آئے اسی کوالٹی کے چپس پاکستان میں تیار کریں۔ اسی طرح رفتہ رفتہ ہر وہ پروڈکٹ جو باہر سے آتی ہے اگر مقامی سطح پر تیار کی جائے تو پاکستان میں لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا اور ہم اس یہودی اور مغربی صنعت کے پھلنے پھولنے کا باعث بھی نہیں بنیں گے جس کا پیسہ فلسطین کے بچوں کا لہو بہانے کے کام آ رہا ہے۔قومی سطح پر پاکستان کے تمام بڑے صنعتکاروں پر مشتمل ایک تھنک ٹینک کی ضرورت ہے جو صرف معیشت کے لیے نہیں انسانیت اور اسلام کے نام پر ایسی تمام مصنوعات پاکستان میں تیار کرنے کے پروجیکٹ کا اعلان کریں جن کے لیے ہم مغرب اور یہودیوں کے مرہون منت ہیں۔