پاکستان میں 2022-23 میں کپاس کی پیداوار 46 لاکھ گانٹھ رہی- جو ایک سال پہلے 2021-22 میں 73 لاکھ گانٹھ تھی- اس سال پیداوار میں کمی 37 فی صد رہی-جس کی وجوہات مون سون کی شدید بارشیں اور سیلاب کی تباہ کاری تھی۔ صوبہ سندھ اور پنجاب میں فصل بہت بری طرح متاثر ہوئی۔ سال 2022 میں کپاس 20 لاکھ ہیکٹر پر کاشت ہوئی جبکہ ہدف 25 لاکھ ہیکٹر کا تھا۔ پاکستان میں کپاس کی ضرورت ایک کروڑ چالیس لاکھ بیلز کی ہے۔اب کاٹن انڈسڑی کی ضرورت پورا کرنے کے لئے پاکستان کو 94 لاکھ بیلز در آمد کرنے پڑے گی۔ جس کی لاگت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ایک طرف جب ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے ہم کس طرح اتنا زر مبادلہ خرچ کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں کپاس کی کاشت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔انڈیا، امریکہ اور چین کے بعد سب سے زیادہ رقبہ پر کپاس کاشت ہوتی ہے جبکہ برازیل کا نمبر پانچواں ہے۔ فی ایکٹر پیداور کے لحاظ سے ہم 39 ویں نمبر پر ہیں۔اسرائیل کا نمبر پہلا ، اورآسٹریلیا کا دوسرا ہے۔ برازیل فی ایکٹر پیداور میں بھی پانچویںنمبر پر ہے۔ 2014-15 میں پاکستان میں کپاس کی پیداوا 139 لاکھ گانٹھ تھی۔ جو کم ہو کر 2019 میں 85 لاکھ رہ گئی اور اب یہ فگر 46 لاکھ پے آگئی ہے۔ گزشتہ پانچ سال 2015-20 میں پنجاب میں زیر کاشت رقبہ میں 23 فی صد کمی ہوئی ہے اور سندھ میں 16 فی صد رقبہ کم کاشت ہوا ہے۔1982 سے لیکر 2008 تک کپاس کے استعمال میں 7 فی صد سالانہ اضافہ ہو رہا تھا۔2007-2008 میں کپاس کی پیداور 1یک کروڑ 56 لاکھ گانٹھ تھی۔2007 کے بعد ہر سال ایک فی صد کمی ہوئی استعمال میں۔ 2009 میں کپاس کے 450 یونٹ کام کر رہے تھے جو ترقی کر کے 2019 میں 400 رہ گئے۔ ان دس سال میں بجائے تعداد بڑھنے کے کم ہو گئی۔ جس کی وجہ تھی ڈالر کے مقابلے میں پاکستان کے روپے کی قیمت میں کمی-بجلی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ-کپاس کی پیداوار میں کمی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ فی ایکڑ پیداوار میں کمی- اچھے بیج کی عدم دستیابی۔ موسمی تبدیلی- اینسکٹ اور پیسٹ کا حملہ‘ سال 2010میں ا تا 2018 کے دوران گنے کی کاشت میں 42 فی صد اضافہ ہوا – گنے کی کاشت 94 لاکھ ہیکٹر سے 134 لاکھ ہیکٹر تک پہنچ گئی۔ کپاس کی کاشت کے سلسلہ میں ملک کی معیشت کو کافی فائدہ ملتا ہے۔ جننگ فیکٹری، دھاگہ بنانے والی مل، کپڑا بنانے والی لوم اور فیکٹریاں، کافی لوگ اس سے روپیہ کماتے ہیں -ٹیکسٹائل انڈسٹری کی صورت میں لوگوں کو روزگار اور ملک کو زر مبادلہ ملتا ہے۔ کسان بھی خوشحال ہوجاتا ہے۔ س وقت ملک کی کاٹن انڈسٹری اپنی استعداد سے پچاس فی صد کم پر چل رہی ہے۔ ہمارے ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہمیں کپاس درآمد کرنی پڑے گی۔ ایک طرف ہماری حکومت کا یہ حال ہے گندم کی فصل جس کی پیداوار میں اضافہ میں کسی حکومتی پالیسی کا اثر نہ تھا اس پر اپنی بے مثال کارکردگی کا ڈھول پیٹ رہی ہے دوسری طرف کپاس کی پیدوار میں جو کمی آئی ہے اس کا ذکر کوئی نہیں کرتا۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے صرف 46 لاکھ کا سفر کیسے ہوا- کون کون لوگ اس زوال کا سبب بنے۔ کون سی جمہوری قوتیں 2008 تا 2023 تک اقتدار میں رہی ان سب کا محاسبہ ہو نا ضروری ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گندم ہم کو امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے۔ کپاس ہم کو امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے۔لہسن ہم درآمد کرتے ہیں۔پیاز ہم درامد کرتے ہیں۔کہنے کو ہم ایک زرعی ملک ہیں خشک دودھ ہم امپورٹ کرتے ہیں۔ صرف گوشت ہم باہر سے نہیں منگواتے۔ کیونکہ اس کی کھپت فی کس بہت کم ہے۔ ہم اس عالمی درجہ بندی میں بہت پیچھے ہیں۔دودھ کی پیداوار میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ دوسری طرف ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انٹر نیٹ کی سپیڈ بہت کم ہے۔ فکسڈ براڈ بینڈ میں پاکستان کا 150واں نمبرہے اور موبائل براڈ بینڈ میں پاکستان 116 ویں نمبر پر ہے۔اگر ہم موبائل براڈ بینڈ کی طرف دیکھیں تو ناروے پہلے نمبر پے ہے۔ یو اے ای دوسرے اور قطر تیسرے اور چین چوتھے نمبر پر ہے۔ ناروے میں ڈاون لوڈ سپیڈ 127 ایم بی فی سیکنڈ ہے اور پاکستان 14 ایم بی فی سیکنڈ پر کھڑا ہے۔فکسڈ براڈ بینڈ میں چلی پہلے نمبر پے ہے اور سنگا پور دوسرے اور چین تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کا نمبر 150 وان ہے۔چلی میں ڈون لوڈ سپیڈ 127 ایم بی فی سیکنڈ ہے اور پاکستان میں 10 میگا بائٹ فی سیکنڈ ہے۔ ہم صرف اس بات پرخوش ہیں کہ ہم چین کے ساتھ سی پیک میں شریک ہیں اور اب افغانستان بھی اس کا حصہ بنے گا۔ ہمارا حال اس اس کمی جیسا ہے جو چوہدری کے ساتھ بندوق اٹھا کر چلتا ہے اور اپنی اکڑ میں رہتا ہے کہ اس کے پاس بندوق ہے۔ ناں بندوق اسکی ہوتی ہے اور ناں اسکے اکڑاپنی۔ وہ صرف چوہدری کی دین ہوتی ہے چوہدری جس دن چاہے اس سے چھین لے۔ ہم نے کبھی اس بات کا موازنہ کیا ہے کہ چین میں زراعت کتنی ترقی کر رہی ہے اور انڈسٹری میں چین کس طرح آگے جا رہا ہے۔ 2049 میں چین اپنی آزادی کے سو سال بعد کہاں ہوگا اور ہم 2048 میں کہاں ہونگے- پاکستان بطور ریاست موجود بھی ہوگا یا نہیں۔کچھ نہیں کہا جاسکتا ہمارے زوال کی سپیڈ بہت زیادہ ہے شاید اسی کو شہباز سپیڈ کہتے ہیں۔ کیونکہ باز کی رفتار اس وقت سب سے تیز ہوتی ہے جب وہ نیچے آتا ہے۔ مگر ایک فرق ہے باز اپنی سپیڈ زیادہ اپنے ہدف کو پکڑنے کے لئے کرتا ہے اور ہم کسی ہدف کے بغیر بڑی تیزی سے پستی کی طرف جا رہے ہیں۔ روم کو جلتا دیکھ کر ہم بانسری بجا رہے ہیں اس دور کے نیرو ہیں ہم۔