خانوادہء حضرت سلطان العارفین کی معروف شخصیت، صاحبزادہ محمد نذیر سلطان، گزشتہ روز، اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے موصوف گزشتہ پچاس برس تک ضلع جھنگ کی انتخابی سیاست میں معتبر اور وطن عزیز کے مقتدر حلقوں میں نمایاں رہے۔ وہ 1970ء میں جمعیتِ علما پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر ہوتے ہی چلے گئے۔ اْن کے ساتھ تعلق کے کئی حوالے تھے، جن میں اہم ترین یہ بھی ہے کہ موصوف، صاحبزادہ محمد حمید سلطان کے برادرخورد اورصاحبزادہ محمد شہزاد سلطان اور صاحبزادہ محمد شہر یار سلطان کے چچا تھے۔ گزشتہ ہفتے، اس سانحہ ارتحال پر تعزیت پیش کرنے کے بعد دربار شریف پر حاضری کی سعادت میسر آئی۔ مزار شریف کا صحن کافی کشادہ اور دیگر امور میں بھی کافی بہتری محسوس ہوئی۔ یہ مزار اوقاف کی دست برد سے محفوظ ہے،سنا ہے جب ایوب خان اپنے الیکشن کے لیے خانوادہ ِ حضرت سلطان باہو کی تائید حاصل کرنے، دربار شریف پر حاضر ہوا، تو مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان بھی ان کے ہمراہ تھے، اور اسی موقع پر یہ عْقدہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا۔ اب ایک عبوری عدالتی فیصلے کے نتیجہ میں، یہاں پرڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جھنگ کی سربراہی میں،ایک باقاعدہ ڈویلپمنٹ کمیٹی موجود ہے، جس میں صاحبزادہ محمد حمید سلطان، صاحبزادہ محمد نجیب سلطان، صاحبزادہ محمد منیب سلطان اور زونل ایڈ منسٹریٹر اوقاف فیصل آباد زون شامل ہیں،زائرین کی طرف سے پیش ہونے والے نذرانہ جات سرکاری عملداری سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ ہفتہ وار کشادگی اور اکاؤنٹنگ کے اِس اہتمام میں بینک کا عملہ موقع پر موجود ہوتا ہے۔ اس انتظام کے نتیجہ میں اِس وقت بھی تقریباچھ کروڑ دربار شریف کے اکاؤنٹ میں موجود ہونگے۔ میری ذاتی رائے میں یہ ایک اچھا اہتمام ہے۔ نوے کی دھائی میں،جب پاکپتن شریف سے بَسّی شریف کے خانوادے کی معروف شخصیت میاں محمود احمد خان ایم این اے منتخب ہوئے، تو انہوں نے مزارات کی حالتِ زار کے پیش نظر، اوقاف کے متبادل ،ایسی ہی ایک سکیم تیار کی تھی، جس کا بنیادی مقصد،ہر وقف سے حاصل شدہ آمدن کو اسی جگہ پر خرچ کرنے کا داعیہ اور اصول کارفرما تھا۔ مزید یہ کہ مزارات اوقاف ایڈ منسٹریشن سے واگزار ہو کر مقامی عمائدین و سجادگان پر مشتمل کمیٹیوں کے سپرد ہو جائیں ، جس سے اوقاف کی مساجد اور مزارات میں ڈویلپمنٹ نمایاں اور معتبر ہوجاتی۔ یہ سکیم منظوری کے قریب تھی کہ متولین و سجادگان زیادہ دیر ایک ایجینڈے اور ایک پیج پر اکٹھے نہ رہ سکے اور دوسری طرف حکومتی حلقوں نے بھی ایک بنے بنائے محکمے اور ان کے ساتھ منسلک سینکڑوں ملازمین اور آئمہ و خطبا،مساجد و مزارات کو اپنے تسلط سے آزاد کرنے کو، کوئی زیادہ بہتر محسوس نہ کیا۔یوں یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ بصورت ِ دیگر، آج مزارات و متولیان کے امور کافی مختلف ہوتے۔ بہر حال حضرت سلطان العارفینؒ کے فیضان سے آج بھی ان کا گھرانہ منورو مزین اور صوفیانہ کردارو عمل اور اخلاص و محبت کا مظہر ہے۔ برادرِ عزیز عثمان کسانہ، رابطے کے مضبوط آدمی ہیں، ان کے ریڈار نے تھورا لیٹ کام کیا، وگرنہ تو حضرت صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے تعلیمی اور تجدیدی کار ہائے نمایاں سے بھی استفادے کا موقع میسرآسکتاتھا۔ حضرت سلطان العارفین کے فکری و علمی رشحات اور شعری شاہپارے ’’ہْو‘‘ کی ردیف سے مزین اور آراستہ ہیں۔ ان کے کلام میں ’’ہْو ‘‘ محض ایک ردیف نہیں بلکہ یہ فکرکی ایک منزل، درد کی دوا اور زندگی کے تپتے صحراؤں میں شجر سایہ دار ہے۔ پنجاب کے صوفی شعراء میں حضرت سلطان باہوؒ کو ممتاز ترین مقام حاصل ہوا۔ وہ 1631ء بمطابق1039ھ میں شاہجہان کے دَور میں موضع’’اعوان‘‘،شورکوٹ ضلع جھنگ کے اعوان خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد بازید محمد ایک صالح، شریعت کے پابند،حافظ قرآن،فقیہہ اور سلطنت دہلی کے منصب دار اور جاگیر دار تھے۔اپنے تعارف کے حوالے سے حضرت باہو سلطانؒ خود فرماتے ہیں: سِرّ اسرار ذات باہو فنا فی ہو فقیر باہو عرف اعوان ساکن قرب و جوار قلعہ شور انہوں نے ظاہری علوم کا اکتساب باقاعدہ اور روایتی انداز میں نہیں کیا،تاھم انہیں نہ صرف اپنے عہد کی علمی زبانوں پر عبور تھا بلکہ وہ مذہبی علوم وفنون سے بھی بہرہ مند تھے۔ آپ نے اپنی والدہ’’حضرت راستی بی بی‘‘سے تمام ضروری علوم حاصل کیے اور اپنے والد سے بھی اکتسابِ علم کیا ،کیونکہ اپ کے والد بھی بلند پایہ عالمِ دین تھے۔ غیر روایتی طور پر علوم کے اکتساب کی مثالیں تاریخ اسلامی سے دیگر کئی اسلاف کی بھی دی جاسکتی ہیں۔جہاں تک باطنی علوم کے حصول کا تعلق ہے توکہا جا تاہے کہ انہوں نے اپنی والدہ سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ انہیں اپنا مرید بنالیں۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا اور بیٹے کو کسی اَور کا مرید ہونے کا مشورہ دیا۔ اس پر سلطان باہوؒ تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ یہ تلاش انہیں شورکوٹ کے جنوب’’گڑھ بغداد‘‘نامی آبادی کی جانب لے گئی، جہاں قادریہ سلسلے کے ایک بزرگ حبیب اللہ قادریؒ مقیم تھے۔ حضرت شاہ حبیب گیلانی سیّد ہیں اور حضرت عبد الرزاق خلف الصدق حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادرجیلانی قدس سرہ کی اولاد تھے، آپؒ کے والد ماجد سیّد فتح اللہ بغداد شریف میں بڑے پائے کے بزرگ تھے، آپؒ کی ولادت بھی بغداد شریف میں ہوئی، بارہ برس کی عمر میں علومِ متداولہ سے فارغ ہو کر چلہ کشی میں مشغول ہوئے۔ اس کے بعد حضرت غوث الاعظمؒ کی جانب سے ارشاد ہوا کہ تم ملک پنجاب میں، سدھ نیں (سدھنائی، عبد الحکیم)، کے قریب جا کر سکونت اختیار کر و اور وہاں موضع’’بغداد‘‘آباد کرو۔آپؒ نے یہاں پہنچ کر پھر بارہ برس عبادت اور چلہ کشی میں گزارے۔ موضع بغداد، دربار مغلیہ سے بطور جاگیر عطا ہوا،یہاں آپ کا مزار ہے۔ بہر طور سلطان باہوؒ، شاہ حبیبؒ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد شاہ حبیبؒ نے انہیں اپنے پیر سیّد عبد الرحمنؒ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔سیّد عبد الرحمن قادریؒ مغلیہ دارالحکومت میں رہتے تھے اور روایتی معنوں میں صوفی نہیں تھے، شاہ منصب دار تھے اور بظاہر دنیا داری کی زندگی بسر کرتے تھے لیکن درحقیقت روحانی ارتقاء کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچے ہوئے تھے۔ وہ سیّد عبد القادر جیلانیؒ کی اولاد تھے۔ چنانچہ سیّد عبدالرحمنؒ سے ملنے سلطان باہوؒ دہلی پہنچے۔ یہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد حکومت کا واقعہ ہے۔ چونکہ ان کا تعلق قادری مکتبہء فکر سے تھا اور وہ داراشکوہ کے حوالے سے عالمگیر تشدد کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان باہوؒ کی دارالحکومت میں موجودگی کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھا گیا ہوگا۔ مشہور ہے کہ انہوں نے ایک سو چالیس کے قریب کتب لکھی تھیں۔ ان میں سے بہت سی امتدادزمانہ کی نذر ہوچکی ہیں،سلطان باہوؒ ’’محکم الفقرائ‘‘ میں ان لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو علم وہنر کی دقعت کے قائل نہیں، لکھتے ہیں: علم اور عالم کا دشمن تین قسموں سے خالی نہیں ہوتا:کافر ہوتا ہے یا فاسق یا جاہل اور فقرکا دشمن بھی، اسی طرح حاسد ہوتا ہے یا منافق یا کاذب ، غافل مردہ دل۔ جاہل تین قسم کا ہوتا ہے:1۔جاہل کافر جو کلمہ طیبہ نہ پڑھے۔2۔وہ جاہل جو اللہ تعالیٰ کو ظاہر وباطن حاضر و ناظر نہ جانے۔3۔وہ جاہل جو کمینی دنیا کا پرستار اور اپنی خود ی میں مست ہو۔