میں سوچتا ہوں آج ہمارے سیاسی اکابرین میں ساتھ بیٹھنے کی اخلاقی جرات کیوں نہیں ہے ۔ایوان صدر مرتبے کے اعتبار سے بیچ بچائو کا کردار ادا کر سکتا تھا لیکن لگتا ہے کہ پارلیمانی سیاست میں اس کا مکین سب کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھنے کے قابل رہ گیا ہے اس سلگتے ماحول میں شاید اس کی اتھارٹی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کی اپنی پارٹی اسے شک کی نظروں سے دیکھ رہی ہے مذاکرات‘بات چیت اور مکالمے کے جتنے بھی راستے ہیں، وہ سب کے سب بند ہیں ،کوئی ادارہ یا شخص ایسا نہیں بچا، جس کی بچھائی ہوئی میز پر سب بیٹھ جائیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سب فریق بن گئے ہیں، آصف علی زرداری کچھ کر سکتے تھے اس حوالے سے سب پر کسی نہ کسی طور پر اثرانداز ہو سکتے تھے لیکن جس طرح وہ تحریک انصاف کے ملبے سے اپنے محل بنانے کے چکر میں پڑ گئے ہیں، اس نے ان کی کلیدی حیثیت کو کمزور کر دیا ہے، ایک طرف عمران خاں اور دوسری طرف سب کے سب۔مکالمہ ختم۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ تاریخ کے کس موڑ پر آپ میز کے کس طرف بیٹھے ہوئے ہیں خدشات اندیشے اور بڑھتی ہوئی مایوسی کوئی ایسا دن کوئی ایسی تدبیر جو بھڑکتی آگ پر پانی کے چند قطرے ڈال سکے۔ عوام بہت سے مصائب برداشت کر چکے شدید کشیدگی کا سامنا کر چکے، اب ان کا حق ہے کہ انہیں امن سکون اور خوشی نصیب ہو۔ تاریخ بنیادی طور پر اہم اور ڈرامائی واقعات کی دستاویز ہوتی ہے خطابت اور سیاست شانہ بشانہ چلتے رہتے ہیں بولے ہوئے الفاظ چھپے ہوئے الفاظ سے زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ عوامی انقلاب مکالمے کے ذریعے ہی برپا کیا جاتا ہے۔ قوم کو سمجھانے اسے حوصلہ دینے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے یقینا وہ کچھ کرنا ہو گا جس میں ان کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کا پیغام ہو اس طرح ہی جمہوریت کی خوشبو ہر طرف پھیل سکتی ہے وزیر اعظم کی آواز ہر پاکستانی کے لئے حوصلے ہمت اور امنگوں کا سرچشمہ ہونا چاہیے، ہر طرف اور ہر طرح کی نفرت کا مہیب عفریت آج ہمارے ملک کے رہنے والوں کو اپنے دانتوں تلے پیس رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری آنکھوں میں ایک ایسا وطن تھا جس سے ہمارے خوابوں میں نئے خوابوں کی سنہری اور رو پہیلی دھنک نکلے گی لیکن آپ خود دیکھیں کہ یہاں جو ہو رہا ہے، وہ اس کے برعکس ہو رہا ہے سب اپنے مفادات کے اسیر بن کر رہ گئے ہیں، نفرت فرقہ واریت علاقائیت ذات پات مذہبی اور لسانی کو کھلی آزادی مل گئی ہے، ہر شخص نے آزادی سے رومانس کے خواب دیکھے تھے۔ہم نے سچ مچ ایسے لیڈروں کا خواب دیکھا تھا جو رنگ نسل اور علاقے کی تقسیم سے بالاتر ہو کر معاملات کو دیکھ کر برت سکتے ہوں لوگ کچھ اچھے کی امید کرتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ شاید حالات بدل جائیں، کچھ اچھے دن آ جائیں، یہ سلسلہ کب تک یوں ہی چلتا رہے گا؟ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ جب ہم زندگی کے مختلف شعبوں پر نظر ڈالتے ہیں، تو یوں لگتا ہے کہ ہم پریشان کن معاملات میں گھرے ہوئے ہیں۔مخدوش اقتصادی صورت حال اور محدود مالی مسائل کی وجہ سے ہم ایک مربوط پلان پر عمل نہیں کر پا رہے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے، جس کے سبب مالی وسائل پوری دیانتداری سے منصوبہ بندی کے مطابق نہیں لگائے جاتے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے وسائل کا بڑا حصہ تعلیم اور صحت پر لگائیں یا پھر اقتصادی مقاصد کے لئے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کریں۔ ہمارا تعلیمی شعبہ بہت زیادہ بحران کا شکار ہے۔ اس کو ہر سطح پر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے سب سے پہلے سرکاری سکولوں کی عمارتوں کی درستگی ان میں تدریس کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے نچلی سطح پر تعلیم کی شرح کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔تعلیم کی سیڑھی کا دوسرا قدم پرائمری اور سکینڈری سطح کا ہے اس میں بہتری کے لئے نصاب تعلیم کی اصلاح امتحانوں کا بہتر طریقہ کار رائج کرنے اور اساتذہ کی تربیت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ سرکاری سطح پر اس کمزوری نے تعلیمی شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کو اپنی من مانی کرنے کا لائسنس فراہم کر دیا ہے۔ اب یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سرکاری سکول مفت کر دیے گئے ہیں بعض جگہ درسی کتابوں کی بھی کوئی قیمت نہیں لی جاتی، اگر ہم ان کی عمارتوں اور فیکلٹیز کو بہتر کر دیں تو والدین بچوں کو خوشی سے ان سکولوں میں بھیجیں گے پھر نسبتاً کم ترقی یافتہ یا دیہی علاقوں میں لڑکوں اور لڑکیوں خصوصاً لڑکیوں میں بیچ میں سکول نہ چھوڑنے کے متعلق آگاہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ فنی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم اپنی نوجوان نسل کو ہنر مند بنا کر معاشرے کا کارآمد فرد بنا سکیں۔ ہمیں یہ نظر بھی رکھنی چاہیے کہ ہماری موجودہ اور آئندہ صنعتی ضروریات کا آپس میں کیا ربط ہے۔ اس سے نہ صرف ہماری فنی مہارت بڑھے گی بلکہ ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔ ہمیں اپنی اعلیٰ تعلیم کے بہتر کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ساتھ ساتھ ہمارے ہاں مدرسوں کی تعلیم ہے پاکستان میں کم و پیش 25لاکھ سے زائد طلباء ان مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان میں زیادہ تر وفاق المدارس کے تحت ہیں۔ مدرسوں کی مضبوط حیثیت کا راز یہ ہے کہ وہ عام طور پر اپنے طلباء کو مفت رہائش اور کھانا پینا دیتے ہیں۔ ان کے نصاب میں جدید علوم کو شامل کر لیا جائے تو اس کے بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ دنیا کے بہت سے ملک ہیں جہاں دینی اور دنیاوی سکول کامیابی سے ایک دوسرے کے برابر چلتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں ایسا نہ ہو سکے .کیا ہمارے بااختیار اور صاحب اقتدار اس پہلو پر بھی نظر ڈالتے ہیں کہ بیرون ملک ہمارا امیج کیوں خراب ہوا۔ 21ویں صدی میں اگر دنیا ہمیں انتہا پسندی کے حوالے سے جانتی ہے تو یہ ایک افسوسناک اور لمحہ فکریہ ہے کہ وہ ہمیں یہ متعصب اور ترقی پسند معاشرہ کیوں سمجھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم اپنی زیادہ سچی توانا اور روشن تصویر دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں قدرت نے ہمیں اپنی بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ (جاری ہے)