رفعت سے گفتگو نوید ظفر مرحوم کے ذکر سے شروع ہوتی پھر ادھر ادھر کی باتیں ہوتیں اور اسی کے ذکر پر ختم ہو جاتی۔ ان کے شہر سے ہمارا تعلق ان کی نسبت سے تو تھا ہی ہم ایک دوسرے کے دکھ سکھ بھی ایک دوسرے سے شیئر کرتے تھے۔میرے گھر والوں سے ان کو خصوصی انس تھا۔جب بھی بات ہوتی پوچھتی گھر والوں کا کیا حال ہے گھر میں خیروعافیت ہے۔پھر وہ سعد کا بتاتی کہ اس کا ایم ایس پبلک ایڈمنسٹریشن ہو گیا ہے۔ درمیان میں نوید کے جانے کی بات کرتیں، اس کی قبر پر جانے کی بات کرتیں۔اپنی بہنوں کا ذکر کرتیں۔شاعری کی بات ہوتی ظفر اقبال کے اشعار سناتیں۔ ہم ایک دوسرے سے اپنے ہم عصر شاعروں کے بارے میں بحث مباحثہ کرتے اور یہ سلسلہ ہمیشہ نوید کے ذکر پر ختم ہوتا۔ نوید لندن میں مقیم تھا اور بڑے بھائی کے ساتھ وکالت کے شعبے سے متعلق تھا۔نوید ان کا چھوٹا بھائی تھا، اس کی پچھلے سال اچانک موت کا انہوں نے بہت اثر لیا تھا۔ لندن کا سفر کیا۔نوید کی قبر پر گئیں مگر یوں لگتا ہے وہ ظاہری طور پر یہاں تھیں اصل میں نامعلوم جہان میں ہمہ وقت نوید کے ساتھ ہوتیں۔ لندن گئیں وہاں سے بھی نوید کی قبر کی تصویریں ارسال کیں۔اس کے بچوں کا پاکستان آمد کا بتایا۔مسز نوید کے بھائی پر جو بیتی وہ سنائی۔ان کی ساری محبت سعد پنکی صباحت میجر عالم نوید اور سعید ظفر کی خوشیوں میں ٹرانسلیٹ ہو گئی تھی۔کبھی میجر عالم کا حال کبھی سعید ظفر کی کتھا سناتی۔ایک بار خوش ہو کر بتایا کہ ان کے بڑے بھائی کو برطانیہ میں لیبر پارٹی کی طرف سے الیکشن میں امیدوار بننے کی خبر سنائی۔ رحلت سے کچھ دن قبل ایک تنظیم محفل مناظمہ منعقد کر رہی تھی جس کی صدارت رفعت کر رہی تھیں خصوصی طور پر مجھے بھی شرکت کی دعوت دی۔ سرور بارہ بنکوی نے کیا خوب کہا: جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں ہمارا ان سے تعلق کئی عشروں پر محیط تھا۔ہمارے درمیان ایک اور رشتہ ظفر اقبال سے محبت تھی۔ہم دونوں ظفر اقبال کی محبت کی ڈور سے بندھے ہوئے تھے۔ملتان اور لاہور کیا دنیا کے کسی کھدرے سے کوئی ظفر اقبال کے خلاف بات کرتا تو ہم ایک ساتھ اس کے موقف کو مسترد کرتے۔ہم دونوں ظفر اقبال سے محبت میں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے تھے۔کبھی کبھی وہ ہنستی ہوئی ظفر اقبال کے عشق کی داستان بھی سناتیں اور ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو جاتیں: ذاکرہ تھی اور خوب رلاتی تھی ظفر مجلسیں پڑھتی ہوئی دل کے عزاخوانے میں ظفر اقبال خود اس کی شاعری کے مداح ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کی نظمیں غزلیں اپنے کالم میں شائع کرتے۔ہماری رفعت سے محبت کا تعلق تھا کہ اپنا پنجابی غزلوں کا مجموعہ " نیں چندل دے کاچھلے" ان کے نام معنون کیا۔رفعت بڑی صلاحیتوں کی مالک تھیں۔نظم اور غزل دونوں میں اظہار کی یکساں قدرت رکھتی تھیں۔اس کی غزل بالکل نیا رنگ لیے ہوئی ہے: تمہارے ہاتھ کیا لگی یہ سات رنگ داستان کہیں سے سرخ اڑ گیا کہیں ہرا نہیں رہا ہمارے دل میں روشنی ہے آ سکو تو آؤ تم ہوا چلی ہے بام پر کوئی دیا نہیں رہا چند دن پہلے میں نے سورہ الزمر کی ایک آیت دوست احباب کو ارسال کی۔اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ صور پھونکے جانے پر سب مر جائیں گے سوائے ان کے جن کو اللہ چاہے گا زندہ رکھے گا۔یہی آیت ان کو بھی ارسال کی کہ آخر وہ کون ہیں جن کو صور پھونکے جانے پر بھی اللہ ان کو زندہ رکھے گا۔انہوں نے جواب دیا مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔میں روزانہ سورہ التغابن کی تلاوت کرتی ہوں۔ میں بلاناغہ صبح سویرے انہیں صبح بخیر کا میسج بھیجتا کوئی دعا، کوئی آیت یا شعر ارسال کرتا۔اسے وہ دوپہر کے قریب دیکھتیں۔رات گئے ان کا شب بخیر کا میسج آتا تب ہم سو چکے ہوتے۔بس ایک ہی رات ان کا شب بخیر کا پیغام نہیں آیا۔ یہ اس سیارے پر ان کی آخری رات تھی۔ نظم میں ان کا نیا رنگ روپ نکل ہی رہا تھا کہ انہیں موت نے آ لیا۔ان کی ایک نظم: امریکہ جانے والا تانگہ۔ گھر سے باہر/ ہرے بانس کے اونچے پودوں سے آگے/ سڑک جو گزرتی ہے /ننھے چراغوں کی بستی سے ہو کر/ ولائیت کو جاتی ہے /ابھی ایک تانگہ جو گزرا ہے/امریکہ جائے گا / اس کی سواری شکاگو میں اترے گی/اور دیر تک اس کی ٹپ ٹپ /۔۔۔۔۔۔۔ بڑی دیر تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیر تک / میرے کانوں میں بجتی رہے گی/ رات پچھلے پہر /زرد رْو بلب کی روشنی کے تلے /میں نے دنیا کا نقشہ بچھایا ہے /بہت ملک آپس میں پینسل سے جوڑے ہیں /سرحد سے سرحد ملائی ہے/ رستے بنائے ہیں /سڑکیں نکالی ہیں / پربت اٹھائے ہیں /بے قابو پانی پہ ساحل لگائے ہیں / رَن وے دکھائے ہیں / خود کو بستی سے باہر درختوں کے نیچے بٹھایا ہے / اور تمہیں میں نے / اوپر کو جاتی ہوئی لِفٹ میں جا سجایا ہے! رفعت ناہید خواتین شاعرات میں ایک رول ماڈل تھیں۔کسی ادبی سیاست بازی میں حصہ نہیں لیا۔مشاعروں اور ادبی میلوں ٹھیلوں کبھی شرکت کے لیے پی آر شپ کا سہارا نہیں لیا۔ایک باوقار خاتون ادبی برادری میں کس طرح سر اٹھا کر زندگی گزار سکتی ہے کوئی ان سے سیکھے۔ وہ ایک شان سے زندگی گزارنے کی قائل تھیں اور انہوں نے شان سے ہی زندگی گزاری۔ اس کے ساتھ ہی اس خاندان سے تعلق کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔ گورمانی خاندان کی ماں نے رفعت جیسی بیٹی پیدا کی۔ماں کی عظمت کو سلام اور رفعت کو ہمیشہ کے لیے شب بخیر۔