ہمارے پاس ندامت کی اذیت اور عقیدت کے آنسوؤں کے سوا کیا ہے جو بانی پاکستان کے حضور پیش کرسکیں۔گیارہ ستمبر ان کی رحلت کا دن تھا۔مسائل میں پھنسی ،مہنگائی کی ماری، بددیانت حکمرانوں کی ستائی ہوئی قوم نے کہیں کہیں سوشل میڈیا پر قائد کی تصویریں شیئر کرتے ہوئے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔مگر یہ اظہار عقیدت اندر سے کھوکھلا کھوکھلا سا محسوس ہوتا رہا۔ اس لیے کہ حقیقت میں عقیدت کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ بانی پاکستان کے اعلی اخلاقی کردار اور افکار کو صرف اہل اختیار اور اہل اقتدار نے ہی فراموش نہیں کیا بلکہ ایک عام پاکستانی نے بھی کبھی قائد کے افکار کو اپنے عمل کا حصہ بنانے کی زحمت نہیں کی۔ یہ اور بات ہے کہ تحریروں، تقریروں ،بینروں اور پمفلٹس پر ہم قائد کے اقوال کو بڑی بے دردی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اور اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ وہ روشن الفاظ اب کلیشے بن چکے ہیں۔ کام کام اور کام ۔اتحاد ایمان تنظیم ۔ بکھرے ہجوم کو قوم بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ان روشن پیغامات کا ہم نے رتی برابر اثر لیا ہوتا تو آج ہم پس ماندگی اور در ماندگی کی ایسی حالت میں نہ ہوتے۔ بانی پاکستان سے ہمارا تعلق سکہ رائج الوقت پر چھپی ان کی تصویر سے آگے دم توڑ جاتا ہے۔ قائد کے کردار میں اصول پسندی دیانت ،انٹیگرٹی اور بلند اخلاقی اقدار کا خزانہ ان کی رحلت کے ساتھ رخصت ہوگیا۔ چلیے استثنیٰ موجود ہے تو یوں کہہ لیں کہ ان عظیم اقدار کا بدترین کال پڑ گیا۔ قائد اعظم کی آنکھیں بند ہوتے ہی پاک سر زمین پر بددیانتی کرپشن اور ہوس کی ایسی آندھیاں چلیں کہ آج 76 سال گزر جانے کے بعدحالت یہ ہے کہ دو کلو آٹا چوری کرنے والے بچے کو رسیوں سے باندھ کر سزا دی جاتی ہے اور اربوں روپے خرد برد کرنے والے شاہی مسند پر بٹھائے جاتے ہیں۔جہاں ظلم بددیانتی اور نا انصافی کا راج ہے۔حکمران اور ہر طرح کی مقتدر اشرافیہ عوام کا خون نچوڑ کر مراعات حاصل کرتی ہے جبکہ غریب دو وقت کی پیٹ بھر روٹی کے لیے ترس گیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ دگرگوں صورت حال دیکھیں اور قائد اعظم کے زیارت میں گزرے زندگی کے آخری 60 دنوں کا مطالعہ کریں تو دل تکلیف سے لہو ہو جاتا ہے کہ میرے عظیم قائد نے بستر مرگ پر بھی پاکستان کے خزانے کی ایک ایک پائی کا حساب کتاب رکھا۔جب وہ تپ دق جیسے موذی مرض سے نڈھال ہو چکے تھے تو بھی ان کے سامنے پاکستان کی فلاح کا مقصد ترجیح اول تھا۔ بانی پاکستان کو تپ دق جیسی موذی مرض کا علم قیام پاکستان سے بارہ برس قبل ہوچکا تھا ۔ ان کی دانش ،دور اندیشی اور حوصلے کو سلام کہ جب ڈاکٹر پٹیل نے ان کے پھیپھڑوں کے ایکسرے میں ٹینس بال کے برابر دو کالے دھبوں کے نشانات دکھاتے ہوئے ان کی صحت کو لاحق خطرات بارے آگاہ کیا تو قائد نے ڈاکٹر پٹیل سے وعدہ لیا کہ وہ اس بات کے بارے میں ان کی بہن فاطمہ جناح کو بھی نہیں بتائیں گے اور یہ خبر ان کے پاس امانت اور راز کی طرح رہے گی۔ہندو ڈاکٹر پٹیل کی انٹیگرٹی کو بھی سلام کہ جنہوں نے کبھی اپنی پیشہ ورانہ دیانت پر سمجھوتا نہیں کیا اور اس خبر کو بانی پاکستان کی رحلت تک راز ہی رکھا۔شاید اس دور میں سبھی لوگ کردار کے حوالے سے بہترین تھے۔ ’’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ ‘‘کتاب میں درج ہے کہ اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا تو ایشیا کی تاریخ کا دھارا اس وقت کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر کسی نے مجھے بتایا ہو تا کہ جناح کم عرصے میں فوت ہو جائیں گے تو میں ہندوستان کو تقسیم نہ ہونے دیتا۔ عظیم قائد نے شدید بیماری کی حالت میں بھی پاکستان میں علاج کروانے کو ترجیح دی۔ برطانیہ یا کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک کے اسپتال میں علاج کروانے کے بارے میں نہیں سوچا۔قدرت نے ہمیں عظیم اور بے مثال رہنما سے نوازا مگر ہم بے قدرے لوگ ہیں۔ہمارے خمیر میں بے وفائی اور بددیانتی رچی بسی ہے۔ان کی وفات کے آخری دنوں میں کچھ ایسے واقعات ہوئے جن پر آج بھی اسرار کا ایک پردہ پڑا ہے۔ اور جن کا ذکر ایک کالم میں نہیں سما سکتا۔ تپ دق کے آخری مرحلے میں قائد پر ہیمرج کا اٹیک بھی ہو چکا تھا ان کی حالت انتہائی نازک تھی۔کوئٹہ سے کراچی واپسی کا سفر تھا ۔ان حالات میں سٹریچر پر لیٹے ہوئے بانی پاکستان کو کراچی ایئرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس لے جانے کے لیے خراب فوجی ایمبولینس بھجوائی گئی جس کا انجن راستے میں بند ہوگیا۔ اور ان سوالات کے جواب کوئی تلاش نہیں کر سکا کہ عظیم قائد کو ایئرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس لے جانے کے لیے کس نے خراب ایمبولینس بھجوائی؟ ایئرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس کے راستے میں ایک خراب ایمبولنس کھڑی ہے۔ سڑک پر آس پاس گزرتے ہوئے لوگوں کو خبر نہیں کہ اس خراب ایمبولینس میں قومی تاریخ کا بے بدل رہنما بیماری سے نڈھال اپنی آخری سانسیں پوری کر رہا ہے۔ہائے کیسی قیمتی زندگی کس تکلیف سے گزری۔ہمارا قیمتی قائد اپنے ہی وطن میں کیوں لاوارث ہوا۔ 15 منٹ کا فاصلہ دو گھنٹے میں طے ہوا۔ بیماری اور اپنوں کی بے وفائی سے نڈھال بانی پاکستان اسی روز صرف سوا چار گھنٹے کے بعد دنیا سے چلے گئے۔ پاکستان کی بدقسمتی کا آغاز ہی یہاں سے ہوا تھا جب ایک اجتماعی بددیانتی اور بے وفائی نے سیاسی تاریخ کے ایک قیمتی اور بے مثال شخص کے ساتھ تاریخ کی بدترین بے وفائی کی۔ وہ نایاب ہیرے جیسے عظیم رہمنا تھے ۔ آخری دنوں میں ان سے بے وفائی کی سزا آج قوم بددیانت مقتدر اشرافیہ کی صورت بھگت رہی ہے۔ میرے نایاب قائد۔۔۔مرے پاس ندامت کی اذیت اور عقیدت کے آنسوؤں کے سوا پیش کرنے کو کچھ بھی نہیں۔۔