معزز قارئین !۔ 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر ، وزیراعظم نواز شریف کو صادق ؔاورامین ؔ ، ثابت نہ ہونے پر آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت نااہل قرار دے دِیا تھا تو، 30 جولائی 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ سلام!۔ عدالتی انقلاب۔ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ پیارے پاکستان میں ججوں کی حکومت تو نہیں ؟ لیکن بڑی آہستگی سے ’’Judicial Revolution ‘‘ (عدالتی انقلاب ) شروع ہوگیا ہے۔

کیوں نہ ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پنج تن پاک ؑکا بھی ، جن کی شفقت سے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان ’’عدالتی انقلاب ‘‘ کے بانِیانِ بن گئے ہیں۔ یقین کیا جانا چاہیے کہ اب ’’عدالتی انقلاب ‘‘ جاری رہے گا ۔ پاکستان میں قومی دولت لوٹنے والا صِرف شریف خاندان ہی نہیں بلکہ آصف زرداری اور اُس قبیل کے اور بھی کئی گروپ ہیں۔ اب عدالتی انقلاب کا ’’Law Roller‘‘ تیز رفتاری سے چلے گا۔ اِنشاء اللہ‘‘۔ 

پھر یہ ہُوا کہ ’’ عدالتی انقلاب کے تیز رفتار "Law Roller" نے اپنا کمال دِکھایا ، نواز شریف ، اُن کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر سزائیں پا کر جیل میں ہیں اور 25 جولائی کے عام انتخابات کے نتیجے میں ، عمران خان کی ’’پاکستان تحریک انصاف ‘‘ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری ہے۔ مسلم لیگ (ن) دوسرے درجے پر اور آصف زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی ۔ پی۔ پی۔ پی) تیسرے درجے پر ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی نے ، عمران خان کو اپنا لیڈر منتخب کر کے ، وزیراعظم بھی نامزد کر دِیا ہے لیکن۔ …… 

’’ردِ انقلاب کی سازش!‘‘

"conspiracy of counter revolution"شروع ہو چکی ہے ۔ پرسوں (7 اگست کو ) جب ’’ الیکشن کمیشن آف پاکستان‘‘ کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے منتظر ،کپتان عمران خان کو پانچ حلقوں میں سے دو حلقوں سے کامیابی روکنے اور تین کا مشروط "Notification" ( اطلاع نامہ ) جاری کرنے کی خبر آئی تو اُس پر تقریباً سبھی نیوز چینلوں پر ، اینکر پرسنز اور سیاسی مبصرین نے ناپسندیدگی کا اظہار کِیا۔ 

کئی مبصرین نے تو اِس طرح کی باتیں بھی کیں کہ ’’ کہیں ، مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم نواز شریف اور آصف زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف سیّد خورشید احمد کے  (اتفاق رائے سے ) مقرر کردہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضاخان ، اپنے محسنوں ؔ کی رضا (خوشنودی) کے لئے عمران خان اور اُن کی پاکستان تحریک انصاف کے لئے کوئی بگاڑ پیدا کر کے، تاریخ میں اپنا نام تو پیدا کرنا نہیں چاہتے؟۔

’’شرط ِ انصاف ہے … ! ‘‘

علاّمہ اقبالؒ کی نظم ’’شکوہ ‘‘ کا یہ مصرع دہراتے ہُوئے کہ …

شرط انصاف ہے ، اے صاحب ِ الطاف عمیم!

مختلف نیوز چینلوں پر ’’پاکستان تحریک انصاف ‘‘ کے ترجمان (منتخب رُکن قومی اسمبلی) فواد چودھری کی ناراضی اور ناپسندیدگی کی گونج بھی سُنائی دِی۔ انہوں نے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی کہ’’ آپ ! معاملات کا خُود ملاحظہ فرمائیں تاکہ الیکشن کمیشن انتقالِ اقتدؔار میں سنجیدہ دکھائی دے۔ کیونکہ غیر سنجیدگی سے ملک اور قوم کو نقصان ہوگا‘‘۔ معزز قارئین!۔ عربی زبان کے لفظ فوادؔ کے معنے ہیں ۔ ’’ دِل / قلب‘‘۔ حضرت داغ ؔدہلوی نے نہ جانے کِسے مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …

تِیر ، جب بیٹھا، مرے دِل میں ، ترازو ہوگیا!

اِس سے ظاہر ہُوا ، قاتل ، بہت سنجیدہ ہے!

جاگتے ، سوتے کی کہانی؟

معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبالؒ نے نہ جانے کِس درویش بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …

دَر قبائے خسروی، دَرویش زی!

دیدۂ بیدار ، خدا اندیش زی!

یعنی۔ ’’ اے بادشاہ!۔ تو بادشاہی کے لباس میں ، درویش کی طرح زندگی، بسر کر! راتوں کو جاگ کر اور ہر دم ( بندگان خدا کی بھلائی کے لئے) اللہ تعالیٰ کو یاد کر!‘‘۔

فلسفۂ اقبالؒ پر عمل کرتے ہُوئے ، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار تو ، چیف جسٹس کے اختیارات کے باوجود ، درویش کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں اور (بندگان کی بھلائی کے لئے ) راتوں کو جاگ کر، اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں لیکن پرسوں ( 7 اگست ہی کو ) ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران ، ’’ جاگتے چیف جسٹس‘‘ میاں ثاقب نثار ’’ سوتے الیکشن کمشنر‘‘ جسٹس (ر) سردار محمد رضا خان کی کہانی کو عام کردِیا ۔ اِس سے پہلے اُستاد شاعر ’’ پہلوان سخن‘‘ حضرت امام بخش، ناسخ ؔسیفی کا ایک شعر پیش خدمت ہے کہ …

بے طرح آج، مری نیند ،اُڑی جاتی ہے!

دیکھو! تکیوں میں ، تو کوئی، پرِ سُرخاب نہیں؟

چیف جسٹس صاحب برسر عدالت ، بتا رہے تھے کہ ’’ انتخابات کے دِن ( 25 جولائی 2018ء کو) جب ، مَیں نے چیف الیکشن کمشنر سے ٹیلی فون پر تین بار رابطہ قائم کِیا تو، اُنہوں نے "Pick Up" نہیں کِیا۔ ممکن ہے ، وہ سو رہے تھے!‘‘ معزز قارئین! 25 جولائی کے دِن الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ، بندوبست میں ، رائے دہندگان ، قوم کی قِسمت کا فیصلہ کر رہے تھے اور اُسی دِن "On Duty" چیف الیکشن کمشنر صاحب سو رہے تھے؟۔ اِس موقع پر علاّمہ اقبالؒ ہی کا شعر عرض کرتا ہُوں کہ …

اب کوئی آواز، سوتوں کو جگا سکتی نہیں!

سِینۂ ویراں میں ، جان ِرفتہ ، آسکتی نہیں!

چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’ اچھا بھلا انتخابی عمل جاری تھا کہ (انتخابات کی رات ) "R.T.S" (Results Transmission System) بیٹھ ؔگیا۔ اِس "Technology" ( مشینی صنعت اور اطلاقی علوم کے شعبے ) پر ، الیکشن کمیشن نے "Millions" خرچ کئے تھے ۔ چیف جسٹس صاحب نے وضاحت نہیں کی کہ "Million" ۔ ڈالرز میں پاکستانی کرنسی میں ؟ ۔ "R.T.S" بیٹھ گیا۔ عوام کی آگاہی کے لئے اِس جملے کی وضاحت بھی ضروری تھی / ہے ۔ عموماً اگر کوئی کام خراب ہو جائے تو اہل زبان ۔ اُسے ’’ بیٹھنا‘‘ کہتے ہیں ۔ پنجابی زبان میں ’’ بھٹھا بیٹھ جانا‘‘ کہتے ہیں ۔ اُستاد شاعر غلام مصطفیٰ مصحفی نے، اپنے محبوب ( گُلِ تر) کی مذّمت کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …

آ کے جب، پاس مرے، وہ گُلِ تَر بیٹھ گیا!

جوش کھا کھا کے، مرا خونِ جگر، بیٹھ گیا!

اچانک مرجانے کو ’’ بیٹھا بیٹھا ، رہ جانا‘‘ کہتے ہیں ۔ حضرتِ داغ ؔدہلوی نے ، نہ جانے اپنے دور کے کِس پاسباں ؔ (نگہبان ، محافظ، پہریدار، چوکیدار) کو موت کا خوف دلاتے ہُوئے کہا تھا کہ …

یونہی رہ جائے گا، وہ ، بیٹھا کا بیٹھا!

کُھلی رہ جائیں گی ، آنکھیں، پاسباں کی!

انگریزی کا ایک محاورہ ہے۔ "The Sleep of the Just" (یعنی۔ چین کی نیند سونا ) ممکن ہے چیف الیکشن کمشنر صاحب کو ، اُن کے ، سرپرستوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ( دِن میں بھی ) چین کی نیند سونے کے لئے ، اُن کے سر پر چیف الیکشن کمشنر شپ کا ’’ طرّہ ٔ امتیاز‘‘ سجا دِیا ہو؟ ۔ مرزا غالبؔ نے اِس طرح کے کسی ، طرّہ باز سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ…

بھرم کُھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا!

اگر اِس طرّہ ٔ پُر پیچ و خم کے پیچ و خم نکلے ! 

اور ہاں ! مجھے یاد آیا کہ ، کسی ادارے کے کاروبار کے ساتھی کو بھی ، جو عملی طور پر شریک نہ ہو، اُس ادارے کا "Sleeping Partner" کہا جاتا ہے ۔ مَیں نے لڑکپن میں پریوں کی شہزادی کی کہانی پڑھی تھی جو 100 برس تک سوتی رہی۔ پھر اُس کا نام "Sleeping Beauty" پڑ گیا تھا لیکن ۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب تو مرد ہیں اور صِرف ایک دن سوپائے ہیں؟ اب صِرف حضرت امیرؔ مینائی کے شعر کا مطالعہ فرمائیں … 

رہے بیدار دِل  جو، عُمر بھر، مُردہ نہ جان اُس کو!

برابر، رات دِن جاگتے تھے ، اب آرام کرتے ہیں!