مولانا آزادؔ کے سیاسی نظریے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کے علمی قد سے انکار ممکن نہیں ۔ مدلل انداز میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کرنا مولانا آزادؔ کا خاصہ تھا۔پاکستان اور ہندوستان بننے کے بعد مولانا آزادؔ نے کہا تھا: ہندوستان نے اگرچہ آزادی حاصل کر لی لیکن اس کا اتحاد باقی نہیں رہا۔ پاکستان کے نام سے جو نئی ریاست وجود میں آئی ہے، اس میں برسراقتدار طبقہ وہ ہے، جو برطانوی حکومت کا پروردہ رہا ہے۔ اس کے طرز عمل میں خدمت خلق اور قربانی کا کبھی کوئی شائبہ نہیں ، اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے یہ لوگ پبلک کاموں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ مولانا آزاد ؔ کے بیان کو سامنے رکھ دیکھیں 75برسوں میں اس ملک کیساتھ کیا ہوا؟یہی سوال ،کٹی لاشیں ،ٹکڑے ہوتے ہوئے جسم، اپنی عزتیں بچا کر دریائوں اور کنوئوں میں چھلانگیں لگانے والی عزت مآب مائیں بہنیں، ہندئووں کی بربریت کا نشانہ بنتے ہمارے ابا و اجداد، برچھیوں سے اپنے جسموں کو ٹکڑوں میں تقسیم کراتے معصوم بچے، دریائے راوی اور چناب کو اپنے خون سے رنگین کرنے والے لاکھوں مسلمان بھی پوچھ رہے ہیں ۔ ان کی ارواح 24 کروڑ پاکستانیوں سے ایک ہی سوال کررہی ہیں کہ ہم نے قربانیاں اس پاکستان کے لئے نہیں دی تھیں، جس میں آج لوگ بھیڑ بکریوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج اسلامی شورائیت کی جگہ نام نہاد مغربی جمہوریت نے لے لی ہے۔ روحانیت کی جگہ مادیت، عافیت کی جگہ فسطائیت، قدامت کی جگہ جدیدیت اور ملائیت کی جگہ مسٹریت کا غلبہ ہو چکا ہے، اگر سب کچھ اسی ڈگر پر چلنا تھا ،تو ہماری قربانیوں کا کیا بنا؟ آج اسلامی مبلغین پابند جبکہ ناچ گانے کو فروغ دیا جا رہا ۔ دہشت گردی کے نام پر مذہبی جماعتوں اور افراد کا عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ۔ خطیبوں کی زبانوں پر بھاری بھرکم تالے لگائے جا چکے ۔ اسلام کے نام پر کسی کو سیاست کی اجازت ہے نہ ہی تڑپنے کی۔ ۔ آج یہاں اسلام کے نام لیوائوں کو کھلی آزادی نصیب ہے نہ ہی فریاد کی اجازت ہے ۔ ماڈرن امام اور خطیب تیار ہو رہے ہیں، جن کی شخصیت سے اسلامی روایات تلاش کرنے کے لئے خوردبین کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس مخلوق منبر و محراب کی زینت بن کر قرآن و حدیث کی تشریح کر رہی ہے۔ ان میں غزالی کا فلسفہ نظر آ رہا ہے نہ رازی کی حکمت، رومی کا سوز و ساز ہے نہ بایزید و جنید کا راز و نیاز، ابن تیمیہ کی جرات ہے نہ ہی ابن قیم جیسی حق گوئی۔ کیا ہم نے آزادی مادر پدر آزاد ہونے کے لئے حاصل کی تھی، نہیں خدا کی قسم نہیں، لاکھوں جانیں قربان کرنے کا مقصد پاکستان کو ثانی ریاست مدینہ بنانا تھا جہاں اسلام کا بول بالا ہو، عدل و انصاف کا ڈنکا بجے، اسلامی مساوات ہو۔ آج ہماری دوستی کا ہاتھ مکہ اور مدینہ کی بجائے واشنگٹن کی طرف بڑھا ہوا ہے۔ ایمان فروشی کا ایک پورا جال بناجا چکا۔ بہت سی این جی اوز، ریٹائرڈ اور برسر ملازمت ڈپلومیٹ اور بیورو کریٹ، بے روزگار دانشور پاکستان کو ناکام ریاست کی گردان پڑھ رہے ہیں۔ 14 اگست 1947ء کو جب ہم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندو اور مسلم کے مابین ایک لائن کھینچی، تب ہمارے پاس دفاتر تھے نہ عالیشان محل، دفتروں میں کام کرنے کے لئے کاغذ تھے نہ ہی پیپر پِن، تب ہماری بیورو کریسی نے کیکر اور سرکنڈے کے کانٹوں سے کام چلا کر اس ریاست کو پائوں پر کھڑا کیا ۔ عام شہریوں نے اپنی جیب سے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دیں، لیکن آج سب کچھ ہمارے پاس موجود ہے ۔اگر کسی چیز کی کمی ہے تو مخلص اور محب وطن قیادت کی۔ مولانا آزادؔ کی بات درست ہے۔سیاست دان کل بھی ذاتی تشہیر کے لیے عوامی کاموں میں شریک ہوتے تھے اور آج بھی ۔جس طرح عیاش لوگ رات کی تاریکی میں بازار حسن میں داخل ہوتے اور پُو پھٹنے سے قبل نکل جاتے ۔کچھ ایسا ہی پاکستان میں حکمرانی کرنے والے سیاسی لوگ ہیں ۔الیکشن قریب تر ہیں ۔تین ماہ بعد یا چھ ۔24کروڑ عوام کے ہاتھوں میں اب اس ملک کی تقدیر ہے۔وہ محاسبہ کریں۔ان 75برسوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟سورت یوسف میں اللہ کا فرمان ہے: اللہ کی رحمت سے ناامید تو کافر لوگ ہی ہوا کرتے ہیں لہٰذامایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ووٹ کی طاقت استعمال کریں ۔ تحریک پاکستان کے شہدا کو یاد رکھیں ۔جنگ آزادی میںپانچ لاکھ مسلمان اور 51 ہزار علماء کرام کو شہید کیا گیا، انگریزوں نے ایسی درندگی کا مظاہرہ کیا، جس کی نظیر تاریخ میں تلاش کرنے سے نہیں ملتی۔ انگریز مورّخ ایڈورڈ ٹانسن اپنی یادداشت میں رقم طراز ہیں: انگریزوں نے علماء کرام کو ختم کرنے کے لیے جو منصوبہ بنایا تھا ،اس کو عملی جامہ پہنانے میں انھوں نے صرف تین سالوں میں چودہ ہزار علماء کو تختہ دار پر چڑھادیا، ان کے جسموں کو تانبے سے داغا گیا اور سور کی کھالوں میں بند کرکے تندور میں ڈالا گیا۔ وہ مزید کہتا ہے: مجھے اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ہے کہ اِن میں ایسا کوئی عالم نہ تھا، جس نے انگریزوں کے آگے سر جھکایا ہو یا معافی مانگی ہو، سارے کے سارے صبروبرداشت کا بے مثال مظاہرہ کرکے آگ میں پک گئے۔تاریخ بتاتی ہے کہ دلّی کے چاندنی چوک سے لیکر پٹنہ تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں۔ جن مسلمانوںنے اِس انقلاب میں حصّہ لیا، انھیں چن چن کر سولی پر چڑھادیا اوران کے مکان مسمار کردیئے گئے، دہلی میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان جتنی مساجد اور مکانات تھے، سب گرا دئیے گئے، صرف محلہ کوچہ چیلاں میں 41سو لوگوں کے سر کاٹ کر پھینک دیئے گئے۔ انگریز ولیم ہارورڈ رسل لکھتا ہے : میں نے دہلی میں انسانی خون کی جو ارزانی دیکھی، اس کے بعد میری دعا ہے کہ ایسا دوسرا منظر اپنی زندگی میں نہ دیکھوں۔مرزا غالب کے الفاظ میں :چوک مقتل اور گھر زنداں کے نمونے بن گئے ۔ انگریز سے لڑنے والے،انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوے دینے والے ، دارالعلوم دیوبند ، ندوۃ العلماء اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کاقائم کرنے والے،کالا پانی کی قید،مالٹا جیل کو آباد کرنے والے،تحریک ریشمی رومال میں شریک لوگ۔مولانا آزادؔ،مولانا محمد علی جوہرؔ اور مولانا ظفر علی خان جنہوںنے اپنے مضامین و اخبارات کے ذریعہ عوام کو انگریزوں کے خلاف بیدار کیا۔یہ تحریک پاکستان کا اولین دستہ ہے ۔ان سب کو خران تحسین پیش کریں۔