مارچ کا مہینہ ہے اور بہار کی آمد آمد ہے شاعر نے کیا خوب کہا ہے گلوں میں رنگ بھرے، باد نو بہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے پاکستان کی کی سیاست میں الیکشن بہار کا موسم ہوتا ہے، ہر طرف گہما گہمی ہوتی ہے۔کہیں جلوس نکل رہے ہیں کہیں جلسے ہو رہے ہیں۔ پوسٹر اور بینر کی بھر مار ہوتی ہے۔اس بار بہارکھل کے نہیں آئی ہے۔ مارچ کا نصف مہینہ چلا گیا ہے۔ ابھی ابھی بہت کم درختوں پر بہار کا جوبن ہے۔ کچھ درخت ابھی خزان کا منظر نامہ پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں قومی اسمبلی کی 37 سیٹوں پر ضمنی الیکشن16 مارچ اور 19 مارچ کو ہونے تھے اب الیکشن کمیشن نے یہ الیکشن موخر کر دئیے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کی ہائی کورٹ میں ان الیکشن کے متعلق رٹ چل رہی ہے۔جب تک ان کیسوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک الیکش کی کوئی امید نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن 30 اپریل کو ہونے والے ہیں۔ ابھی ان کے شیڈیول کا اعلان ہوا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور کچھ اور اہم عنا صر الیکشن سے آنکھ چرا رہے ہیں۔کے پی کے کی اسمبلی کے الیکشن کا ابھی اعلان ہوچکا۔کے پی کے کے گورنر نے ابھی تک الیکشن کی تاریخ 28 مئی تجویزکی۔ابھی الیکشن کمیشن کی ملاقات پنجاب اور کے پی کے کے نگران وزیر اعلی سے ہونے والی ہے اس کے بعد جو ہوگا وہ دیکھا جائے گا۔ عمران خان آج کل پیشی پیشی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان پر بہت سے مقدمات ہیں وہ ابھی تک عدالت کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں ۔توشہ خانہ کیس، میجسٹریٹ صاحبہ کی توہین کا کیس لگ یوں رہا ہے کہ کسی نہ کسی کیس میں عمران خان کو نااہل کر دیا جائے گا تاکہ نواز شریف اور ان ہمنوائوںکو کھلنے کے لئے کھلامیدان مہیا کیا جاسکے۔ لاہور میں 8 مارچ کو جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن کا قتل ایک قابل مزمت ہے۔ سیاست میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو صبر کا دامن تھام کے رکھنا ہو گا ورنہ دونوں کے لئے آنے والے دنوں میں مشکل پیدا ہو جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز گھڑی چوری والی مہم میں اب خود بھی پھنس گئی ہے۔ گھڑی چور کا نعرہ جو اب تک پاکستان مسلم لیگ لگاتی آئی ہے اب پاکستان تحریک انصاف گاڑی چور کا نعرہ لگائے گی۔ توشہ خانہ کیس میں اب جو لسٹ حکومت کی جانب سے پبلک کی گئی ہے اس نے سب کا پول کھول کر کے رکھ دیا ہے۔ عمران خان نے قیمتی گھڑیاں 20 فی صد کے قریب رقم دے کے لی ہیں اور جناب آصف زرداری اور نواز شریف نے قیمتی گاڑیاں اسی طرح سے حاصل کی ہیں۔ اب جو لسٹآئی ہے اس میں پاکستان کے موجودہ اور سابقہ وزیر اعظم سب شامل ہیں۔ اسی طرح صدر کا عہدہ بھی شامل ہے۔ آصف زرداری، پرویز مشرف، عارف علوی سب لوگ شامل ہیں۔ اسی طرح وزیر خارجہ کی شکل میں شاہ محمود قریشی، بلاول بھٹو زرداری،خورشید محمود قصوری سب ہی ایک صف میں کھڑے ہیں۔ اس لسٹ میں بڑی دلچسپ باتیں ہیں جیسے ایک بٹوہ جس کی قیمت 150 روپے لگائی گئی ہے۔ ریاست مدینہ کا پرچار کرنے والے عمراں خان بھی قیمتی گھڑیوں کے شوقین نکلے اور اسی طرح ان کی بیگم جو روحانیت کی پرچار کرنے والی ہیں۔ انہوں نے بھی زیورات کی مد میں 90 لاکھ کی خریدادری کی۔ ان زیورات میں انگوٹھی، بریسلٹ، اور ہار شامل ہیں۔ نواز شریف جن کو قوم کا نجات دہندہ قرار دیا جاتا ہے وہ بھی مرسڈیز گاڑی لے گئے۔ آصف زرداری نے بھی ایک ٹیوٹا گاڑی لی تھی جس کی اس وقت قیمت دو کروڑ کے قریب تھی۔ ایک بی ایم ڈبل یو جس کی قیمت اب نو دس کروڑ کے قریب ہے۔ اس لسٹ نے سب سیاسدانوں کا کچا چٹھہ کھول دیا ہے ابھی عدلیہ اور دوسرے اداروں کی لسٹ نہیں آئی کہ انکے اعلی عہدیدار باہر سے کیا کچھ وصول کرتے رہے ہیں۔لگتا ہے اگلہ الیکشن گھڑی چور اور گاڑی چور کے نعرہ پے لڑا جائے گا۔ عوام کی بات کسی نے نہیں کرنی۔ گھڑی اور گاڑی کے چکر میں عوام کو رکھنا ہے۔اس وقت آٹا کتنا مہنگا ہے اور گرمی میں کتنے لوگ گرمی سے مریں گے اور کتنے سفید پوش لوگ بل کا کرنٹ سے مریں گے۔ ہمارا مذاق اب پڑوسی بھی آڑانے لگے ہیں۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک تقریر کا بہت چرچا ہے جس میں وہ پاکستان کے عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنے حکمرانوں سے کچھ سوال پوچھیں۔پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ نے پاکستان کے عوام کا سر ساری دنیا کے آگے جھکا دیا ہے اور ان کی ابھی تک نظر بھی نہیں جھکی۔ کس اخلاقی اقدار کی بنا پر یہ لوگ اتنے مہنگے تحائف اونے پونے اور مفت میں گھر لے جاتے رہے ہیں۔ شرم نام کی کسی چیز کا وجود ہے بھی یا نہیں۔ ابھی تو لوگ اسی بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ دس روپے کی چیز کیسے دو روپے میں لی۔ ابھی وہ یہ نہیں جانتے کہ اس دس روپے کی اصل قیمت 30 ، چالیس تھی۔مریم نواز کو دیکھتے ہیں کہ اب بھی وہ گھڑی کا ذکر کرتی ہیں یا گاڑی کا ذکر انکو گھڑی کا ذکر کرنے سے روکے گا۔عمران خان کے مداحین ان کو درویش صفت مانتے ہیں کیسا درویش ہے جو کروڑوں کی گڑیوں کا شوق رکھتا ہے۔ حضرت عمر بن عبدلعزیز کا قصہ تو سب نے سنا ہوگا ۔کہتے ہیں عمر بن عبدلعزیز خلیفہ بننے سے پہلے عرب میں اپنے لباس کی وجہ سے مشہور تھے۔ بہت قیمتی کپڑے پہنتے تھے۔ جب خلیفہ بنے تو سادگی انکے سامنے اپنی موت مر گئی۔ گھر کا چرغ بجھا دیتے تھے کہ اب وہ حکومت کا کام نہیں کر رہے اس چراغ کا تیل بیت المال سے آتا ہے۔کہاں یہ غربا جو گاڑی اور گھڑیوں پے مرتے ہیں۔