ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ایک طرف وہ فریق ہے، جواسمبلیوں سے استعفے دے کر اسی اسمبلی کے لیے ضمنی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے دوسری جانب وہ فریق ہے جو سارے استعفے قبول کر نے کی بجائے مرضی کے حلقوں سے استعفے قبول کر کے ہوم گرائونڈ پر میلہ لوٹنا چاہتا ہے۔ عوام جائیں بھاڑ میں ، ان کی اور ملک کی مالی حالت کی کسی کو پرواہ نہیں ، قومی خزانے پر سیاستیں ہو رہی ہیں۔ ایک طرف تحریک انصاف ہے ، وہ نہ ضابطے کے مطابق استعفے دے رہی ہے نہ وہ اسمبلی میں جا رہی ہے۔ استعفوں پر اگر اتنا ہی اسرار ہے تو اس کا جو مروجہ قانونی طریق کار حکو مت بتا رہی ہے کہ ہر رکن کا سپیکرکے پاس پیش ہو کر ان کے سامنے دستخط کرنا ضروری ہے تو اس پر عمل کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ اسی طرح حکومت اگر کچھ اراکین کے استعفے منظور کر کے چند خاص نشستوں پر الیکشن کروا سکتی ہے جہاں تحریک انصاف کی جیت کا مارجن کم تھا تو وہ سب نشستوں پر ایک ساتھ الیکشن کیوں نہیں کروا دیتی؟ تحریک انصاف نے اگر استعفے ضابطے کے مطابق نہیں دیے تو کیا ہوا۔ سپیکر رولنگ دے دے کہ چونکہ تحریک انصاف کی اعلانیہ پالیسی ہے کہ اس کے اراکین مستعفی ہو چکے ہیں اس لیے فلاں سیشن کے فلاں دن تک ہم دیکھیں گے جو جو معزز رکن اسمبلی ایوان میں تشریف نہیں لاتے ہم ان کے استعفے منظور کر کے متعلقہ حلقے میں الیکشن کروا دیں گے۔ اس صورت میں یا تو تحریک انصاف اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے سپیکر کی رولنگ کو تسلیم کر لے گی یا پھر عدالت جا کر دہائی دے گی کہ ہم نے تو صرف زبانی استعفے دیے ہیں اندریں حالات استدعا ہے کہ ہماری رکنیت بحال کرتے ہوئے ہمیں ایک عدد مزید یو ٹرن لینے کی اجازت دی جائے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں اس بات پر اتفاق ہے کہ چیزیں الجھتی ہیں تو انہیں سلجھانے کی ضرورت نہیں ہے اور کہیں ابہام ہے تو اسے واضح کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ نہ آئین کی کسی کو پرواہ ہے نہ پارلیمانی روایات کی۔ ملک کی معاشی حالت سے بھی سب بے نیاز ہیں۔ صرف سیاستیں ہو رہی ہیں۔اور کسی کو پرواہ نہیں کہ اس سیاست کی قیمت کیا ہے جو ملک اور عوام نے ادا کرنی ہے۔ جیساہیجان اور جیسی افراتفری ہمارے حصے میں آٓئی ہے دنیا میں کہیں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔اطراف میں ممالک ہیں جو فطری انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سیاست بھی ہو رہی ہے اور حکومتیں بھی آ اور جا رہی ہیں لیکن معاشرے کا فطری سفر بھی جاری ہے۔ یہ صرف ہمارے ہاں ہو رہا ہے کہ سیاست نے ہر چیز کو چاٹ لیا ہے۔ گلی کوچوں سے دفاتر تک صرف سیاست ہورہی ہے۔ سماجیات ، ادب ، ثقافت سب کچھ اجنبی ہوتا جا رہا ہے۔ ایک زندہ اور فعال سماج میں بہت سے پہلوئوں پر کام ہو رہا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں صرف سیاست ہو رہی ہے۔ اس سیاست کی تلخی نے پورے ملک میں زہر کھول رکھا ہے۔ ابھی پاکستان مدرسہ بورڈ کے سابق چیئر مین اور انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنر کے ممبر برادر مکر م ڈاکٹر عامر طاسین صاحب سے بات ہو رہی تھی، فرمانے لگے ، قومی خزانے کا حساب چھوڑیں آپ ان دونوں سیاسی گروہوں کا اعتماد چیک کریں۔ اعتماد کی یہ کہانی انہوں نے کچھ یوں سنائی کہ : امریکہ میں مائیکروسافٹ نے ''آئی ٹی ایکسپرٹ مینیجر برائے یورپ'' کی ایک آسامی کیلئے درخواستیںمانگیں۔ تقریباً پانچ ہزار امیدواروں نے درخواستیں جمع کروائیں۔ بل گیٹس اتنے امیدواروں کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اور انہیں ایک بہت بڑے گراؤنڈ میں جمع کرکے ان سے مخاطب ہوا: بل گیٹس: آپ سب کا بہت شکریہ۔ چونکہ یہ آسامی بہت ہی اہم اور ٹیکنیکل ہے۔ لہذا آپ میں سے جو جاوا زبان کو جانتے ہیں، وہ موجود رہیں، باقی تمام حضرات سے معذرت، وہ جا سکتے ہیں۔ ایک پاکستانی بھی امیدواروں میں کھڑا تھا۔ اس نے سوچا مجھے جاوا تو نہیں آتا لیکن پھر بھی میں اگر رک جاؤں تو کیا حرج ہے۔ چنانچہ وہ وہیں کھڑا رہا۔ جبکہ جاوا نہ جاننے والے ایک ہزار افراد چلے جاتے ہیں۔ بل گیٹس: ہماری آج کی مینیجر کی پوسٹ کے لیے مینجمنٹ کوالٹی بہت ضروری ہے۔ آپ میں سے وہ افراد جن کی ماتحتی میںکم از کم سو افراد ہوں، موجود رہیں، باقی سب جا سکتے ہیں۔ پاکستانی نے پھر سوچا کہ میرے تو گھر والے میرے ماتحت نہیں۔ لیکن رک جاتا ہوں۔ ممکن ہے کوئی چانس بن جائے۔ امیدواروں میں سے مزید ایک ہزار افراد چلے جاتے ہیں بل گیٹس: اس جاب کیلیے ہیومن ریسورس مینجمنٹ کی ڈگری لازمی ہے۔ صرف اس ڈگری والے رکیں باقیوں سے معذرت۔ پاکستانی نے پھر سوچا کہ ڈگری وگری تو کوئی نہیں۔ مگر رک جانے میں کیا حرج ہے۔ ایک ہزار افراد مزید کم ہو گئے۔ بل گیٹس: ہمیں تجربہ کار مینجر کی ضرورت ہے۔ جس کے پاس کم از کم پانچ سالہ تجربہ ہے وہ رک جائے۔ باقی جا سکتے ہیں۔ پاکستانی پھر سوچتا ہے کہ تجربہ تو کسی کام کا نہیں لیکن جانے سے بہتر ہے کہ رک جاؤں۔ شاید چانس بن جائے۔ ایک ہزار مزید افراد گراؤنڈ سے چلے گئے۔ بل گیٹس: گڈ! اب صرف ایک ہزار مناسب افراد بچ گئے۔ امیدوار کیلیے ضروری ہے کہ اسے یورپ کی کئی زبانیں آتی ہوں۔ یہ سن کر آخری ہزار میں سے پانچ سو افراد اٹھ کر چلے گئے۔ پاکستانی اردو پنجابی کے سوا کچھ نہ جانتا تھا۔ لیکن بہرحال رک گیا۔ بل گیٹس: گڈ۔ آپ تمام افراد بنیادی شرائط پر پورا اترے۔ اب وہی امیدوار رکے جو روسی زبان پر عبور رکھتا ہو۔ یہ سن کر چار سو اٹھانوے افراد اٹھ کر چلے گئے۔ جبکہ پاکستانی اور ایک اور آدمی رک جاتے ہیں۔ اب آخری 2 افراد اور بل گیٹس گراؤنڈ میں موجود رہ گئے۔ بل گیٹس: بہت خوب! آپ دونوں ان 5 ہزار افراد میں سے سب سے زیادہ قابل نکلے۔ ویری گڈ۔ اب آپ دونوں ایک دوسرے سے روسی زبان میں بات چیت کریں۔ جو زیادہ صحیح بولے گا۔ وہ منتخب کر لیا جائے گا۔ پاکستانی نے سوچا اب منزل قریب ہے۔ کچھ نہ کچھ بولنا چاہیے،دوسرے آدمی سے مخاطب ہو کر کہا: ''ہاں بھئی اُستاد، کیا حال ہیں؟'' دوسرا آدمی: '' شُکر مولا دا تُوں سُنا'' کہانی سنا چکے تو عامر طاسین نے پوچھا: ''ہاں بھئی اُستاد، کیا حال ہیں؟'' میں نے عرض کی : '' شُکر مولا دا تُوں سُنا''