پاکستان ایک آئینی ملک ہے۔ پھر اس میں آئین ہمیں زخم خوردہ کیوں نظر آتا ہے۔کیاسب سے بہترین طریقہ یہ نہیں کہ قوم اور ملک محفوظ رہے اور آئین پر جوں کا توں عمل ہو۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک فوجی حکمرانوں کے مختلف اوقات میں خصوصاً غیر ملکی صحافیوں کو دیے گئے انٹرویوز میں اپنے ذہن کے کسی گوشے میں اجاگر ہونے والی اس خواہش کا اظہار ضرور ملتا ہے کہ ملک کو کسی باضابطہ طریقہ کا پاکستان ایک آئینی ملک ہے۔ پھر اس میں آئین ہمیں زخم خوردہ کیوں نظر آتا ہے۔ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک فوجی حکمرانوں کے مختلف اوقات میں خصوصاً غیر ملکی صحافیوں کو دیے گئے انٹرویوز میں اپنے ذہن کے کسی گوشے میں اجاگر ہونے والی اس خواہش کا اظہار ضرور ملتا ہے کہ ملک کو کسی باضابطہ طریقہ کار پر چلایا جائے۔ ایوب خان نے ایک برطانوی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے اقتدار سنبھالنے کے دو سال بعد یعنی مئی 1960ء میں کہا تھا یہ حیران کن بات لگتی ہے کہ ایک شخص جو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز ہے اس کی مرضی و منشا ملک میں آئین اور قانون کا درجہ حاصل کر لے اس لئے ہم بہت احتیاط سے فیصلے کرتے ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی اہم فیصلے سے قبل اس سے وابستہ ماہرین کی اجتماعی دانش کو ضرور بروئے کار لایا جائے ۔ ولیم کرٹس نے فیلڈ مارشل سے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ اگر آپ اپنے عسکری اختیار کو ایک منظم سویلین رول کے پنپنے کے لئے استعمال کرتے تو یہ آپ کے ملک کے لئے بہتر ہوتا۔ جنرل ایوب کا جواب تھا ہم بڑے تحمل سے صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے لیکن سیاسی عدم استحکام نے ہمارے لئے کئی نازک اور حساس سوالات پیدا کردیے تھے۔ ایوب خان کا پورے دور حکومت پر نظر ڈال لیں۔1962ء کے آئین کا نفاذ، انتخابات میں مادر ملت کے خلاف کامیابی کی حقیقت‘ صنعتی و زرعی ترقی‘1965ء کی پاک بھارت جنگ معاہدہ تاشقند اور سیاسی مخالفین کے خلاف ایبڈو سے لے کر ہر ممکنہ بے رحمانہ کارروائیاں اب یہ صرف تاریخ ہے۔ یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس تاثر کو اپنے حوالے سے توانا کرنے کی کوشش کی کہ وہ ملک کو ایک ایسی جمہوریت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جہاں پر تمام فیصلے عوامی امنگوں کے مطابق کئے جائیں اس کے لئے انہوں نے ون یونٹ کے خاتمے اور ون مین ون ووٹ کے اصول کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ایک جرمن جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل یحییٰ کا کہنا تھا کہ انہیں مشکل حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی ذمہ داری ملی۔ اس سوال پر کہ وہ جلد از جلد انتخابات منعقد کروا کر اقتدار سے الگ ہو جائیں گے۔ ایوب خان نے ایک برطانوی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے اقتدار سنبھالنے کے دو سال بعد یعنی مئی 1960ء میں کہا تھا یہ حیران کن بات لگتی ہے کہ ایک شخص جو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے عہدے پر فائز ہے اس کی مرضی و منشا ملک میں آئین اور قانون کا درجہ حاصل کر لے اس لئے ہم بہت احتیاط سے فیصلے کرتے ہیں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ کسی بھی اہم فیصلے سے قبل اس سے وابستہ ماہرین کی اجتماعی دانش کو ضرور بروئے کار لایا جائے ۔ ولیم کرٹس نے فیلڈ مارشل سے دریافت کیا کہ کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ اگر آپ اپنے عسکری اختیار کو ایک منظم سویلین رول کے پنپنے کے لئے استعمال کرتے تو یہ آپ کے ملک کے لئے بہتر ہوتا۔ جنرل ایوب کا جواب تھا ہم بڑے تحمل سے صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے لیکن سیاسی عدم استحکام نے ہمارے لئے کئی نازک اور حساس سوالات پیدا کردیے تھے۔ ایوب خان کا پورے دور حکومت پر نظر ڈال لیں۔1962ء کے آئین کا نفاذ، انتخابات میں مادر ملت کے خلاف کامیابی کی حقیقت‘ صنعتی و زرعی ترقی‘1965ء کی پاک بھارت جنگ معاہدہ تاشقند اور سیاسی مخالفین کے خلاف ایبڈو سے لے کر ہر ممکنہ بے رحمانہ کارروائیاں اب یہ صرف تاریخ ہے۔ یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا تو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس تاثر کو اپنے حوالے سے توانا کرنے کی کوشش کی کہ وہ ملک کو ایک ایسی جمہوریت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جہاں پر تمام فیصلے عوامی امنگوں کے مطابق کئے جائیں اس کے لئے انہوں نے ون یونٹ کے خاتمے اور ون مین ون ووٹ کے اصول کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ایک جرمن جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل یحییٰ کا کہنا تھا کہ انہیں مشکل حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی ذمہ داری ملی۔ اس سوال پر کہ وہ جلد از جلد انتخابات منعقد کروا کر اقتدار سے الگ ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا یقینا کیونکہ عوام کی رائے سب سے اہم ہوتی ہے۔ اس لئے ہم فیئر اور فری الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایک ایسے آئین کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے جو ملک کے تمام صوبوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہو۔ جنرل یحییٰ نے بھی قانونی ماہرین سے 1956ء اور 1962ء کے آئین کی روشنی اور نئے حالات اور تقاضوں کے مطابق آئینی ڈرافٹ کی تیاری کی ہدایت کی تھی۔ وہ بھی سمجھتے تھے کہ ملک میں پارلیمانی نظام ہونا چاہیے لیکن جب 1970ء کے انتخابات کے نتائج آئے تو وہ ان کے لئے حیران کن تھے۔ بھٹو نے ملک کے مغربی اور شیخ مجیب نے مشرقی حصے سے کامیابی حال کی۔شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے مغربی پاکستان سے اور بھٹو کی پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان سے ایک بھی نشست حاصل نہیں کی تھی۔ مشرقہ پاکستان مین عوامی لیگ لی جیتی ہوئی نشتیں ، پیپلز پارٹی سے زیادہ تھیں لیکن یحییٰ خان نے اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے باوجود اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کرنے کی بجائے ایک فوجی آپریشن کے ذریعے پوری بساط الٹ دی جس کا نتیجہ بالآخر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔ یحییٰ خان نے اپنے متعدد انٹرویوز میں ملک میں جمہوریت کی بحالی کی بات ضرور کی لیکن مشکل یہ تھی کہ کسی بھی حکمران کی طرح وہ اپنے اقتدار کو طویل دینے کے لئے کسی حد تک جانے کے لئے تیار تھے اور بالآخر وہ اسی وقت اقتدار سے الگ ہوئے جب ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ رہا۔بھٹو نے برسر اقتدار آ کر حالات کے تحت لامحدود اختیارات حاصل کرنے کے بعد ان فیصلوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ بھٹو ایک جمہوری عمل سے اوپر آئے تھے اس لئے ان حالات میں متفقہ آئین کی تیاری اور اس کا نفاذ پاکستانی تاریخ میں ایک اہم باب تھا۔ لیکن بھٹو کا طرز حکومت ان کے بہت سے کارناموں کے ساتھ ساتھ ان کے من مانے انداز میں حکمرانی کا اظہار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کی تاریخ میں ضیاء الحق کا مارشل لائی دور تباہ کن ثابت ہوا۔ کیونکہ عنان اقتدار ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں آ گیا جس کی نظر میں آئین کی حیثیت چند کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ کچھ نہیں تھی، اس کا برملا اظہار انہوں نے متعدد بار کیا۔۔ افغانستان پر روس کے قبضے کے بعد افغانیوں کی پاکستان آمد‘ اسلحہ اور منشیات کی یلغار نے پاکستانی معاشرت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ۔ ضیاء الحق نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے اورباوردی صدر کے عہدے پر براجمان رہے اور 1988ء میں انہوں نے جونیجو حکومت کے خلاف من مانے انداز میں یہ تلوار لہرا دی۔