ایک دانشور کا قول ہے :ہمیشہ اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرو کیونکہ انسان پہاڑوں سے نہیں، پتھروں سے ٹھوکر کھاتا ہے۔ عید الاضحی پر گائوں کی جانب پلٹا۔یہ نہیں کہ میرے بہن بھائی وہاں مقیم ہیں بلکہ اس لیے کہ میرا خمیر اس مٹی سے ہے ۔تاحد نگاہ سبزہ ،صاف ستھرا ماحول ،سحر میں جکڑ لینے والی پگڈنڈیاں،بچپن کے دوست اور پرانی یادیں۔ ماضی کی نسبت اب گائوں کے لوگ کافی آسودہ حال ہیں ،ہر گھر میں سے دو تین نوجوان یورپ جا بسے۔کئی سعودیہ اور عرب امارات میں ۔بعض نے ولایت کو مسکن بنا لیا۔اس کے باوجود ہر کسی کو مہنگائی کا رونا روتے دیکھا ۔ کامران لوگ اور کامران معاشرے وہ ہوا کرتے ہیں، جو بدلتے تقاضوں کا ادراک کر سکیں۔ اہل دیہہ نے کر دکھایا۔اگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے تو پیسہ دیکھنے کو ترستے۔ نہ جانے چند ماہ بعد ارباب اقتدار عوام کے پاس کس منہ سے جائیں گے ۔ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا رکھی؟ اس کے باوجودماضی جیسا احتجاج اورجلائو گھیرائو نہیں ۔ کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ خلق ِخدا، 13جماعتی حکمران اتحادکی پالیسیوں سے مطمئن ہے ۔عوام کی خاموشی سے اس طرح کا تاثر کشید کرنا یقینا درست نہیں، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل نے عوام کی بڑی تعداد کو پریشان کر رکھا ہے۔اس وقت ناداری اور غربت کی نچلی لکیر کو چھوتا طبقہ شدید آزار کا شکار ہے۔ حکمران طبقہ جب عوام کے روبرو کھڑا ہو گا تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے ۔اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو ہر جانب قوس قزح کے رنگ بکھرے نظر آتے ہیں ۔یہی طرز عمل سیاسی جماعتوں کو در و دیوار پر کنندہ حقائق پڑھنے والی بصارت اوردرست حکمت عملی تراشنے والی بصیرت سے محروم کر دیتا ہے۔جوں جوں اقتدار کا سورج ڈھلوان کی جانب گامزن ہے،ارباب اقتدار بھی دست وگریبان ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔ ان تمام مسائل کے باوجود سورج کی ایک کرن نظر آئی ہے ۔پنجاب کے تین اضلاع بکھر، خوشاب اور ساہیوال میں کم از کم 45 ہزار 267 ایکٹر اراضی ’کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ‘ کے لیے افواج پاکستان کے ذمہ کر دی گئی ہے۔افواج پاکستان اپنے وسائل سے بنجر زمین کو آباد کرے گی۔ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، بشمول جوائنٹ وینچر پارٹنرز اور مقامی افراد کی مدد سے فوج اسے زرخیز زمین میں بدل دے گی۔ کاشت سے حاصل ہونے والی کم از کم 40 فیصد آمدنی پنجاب حکومت کے پاس جائے گی جبکہ 20 فیصد زراعت کے شعبے میں جدید تحقیق اور ترقی پر خرچ کی جائے گی، باقی آمدن آنے والی فصلوں اور منصوبے کی توسیع کے لیے استعمال ہو گی،یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں زرعی شعبے کی شرح نمو 1960ء میں 4 فیصد سے گر کر 2022ء میں 2.5 فیصد رہ گئی، جس کی وجہ ناقص اصلاحات، غیر مؤثر زرعی پالیسیوں کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافہ ہے۔ اس دوران ہمارے ہمسائے ممالک نے جدید تحقیق سے ایک سال میں چار فصلیں لینا شروع کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ممالک زرعی اجناس سے زرمبادلہ کماتے ہیں ۔پاکستان اپنے زرمبادلہ سے زرعی اجناس خریدتا ہے ۔ سیاست دان جدید زرعی اصلاحات متعارف کرواکر عوام کا مرکز نگاہ بن سکتے تھے اور اپنے بارے میں ان امیدوں کو پھر سے جگا سکتے تھے، جو بڑی حد تک مرجھا چکی تھیں،مگر انھوں نے اپنے خزانے بھرنے کے سوا کچھ کیا ہی نہیں ۔ حکمران ملک کے کوچہ وبازار اور بستیوں میں اس انقلاب کا دیباچہ رقم کرتے ہوئے عوام کے دروازوں پر ووٹ کے لیے دستک دے سکتے تھے ، جس کی نوید وہ سناتے رہے ہیں۔مگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے فرصت تو ملے۔ ملکی بدقسمتی ہے کہ کل قابل کاشت اراضی کا کم از کم 27 فیصد استعمال نہیں کیا جارہا ،حکمران طبقہ اگر اس جانب پہلے توجہ دیتا ، جدید زرعی طریقوں، مشینری اور اعلیٰ معیار کے بیجوں کو استعمال کر کے زرعی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ افق سے طلوع ہوتے سیاسی سورج کو کسی ہنگامے کی ضرورت نہیں ، آفتاب اپنی دلیل آپ ہوتا ہے،حکمران اتحاد اپنی غلط پالیسیوں پر گرفت کی بجائے اپنی توانائیاںایسے کاموں پر ضائع کررہا ہے ۔جس سے ان کی کھیتی ہری ہونے کے امکانات انتہائی محدود ہیں ۔ حکمران طبقے کے مطابق عوام اب خود ہی کفایت شعاری سے کام لینا ہے ۔اگر رہن سہن میں سادگی اپنائی جائے تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہو سکتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ آمدنی بڑھانے سے کہیں زیادہ اہم کام اخراجات میں کمی ہے۔غریب طبقہ تو اس سے پریشان ہے ہی، متوسط طبقہ بھی بری طرح متاثر ہے اور حد تو یہ ہے کہ اب کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی مہنگائی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ ایک بار سیدنا عمر بن خطابؓکے دورِ خلافت میں گوشت کی قیمت میں حد درجہ اضافہ ہوگیا۔ لوگ گوشت کی گرانی کی شکایت لے کر عمر فاروقؓ کی خدمت میں پہنچے۔ آپ ؓنے ان کی بات سننے کے بعد کہا ’’ اگر اس کا بھائو چڑھ گیاہے تو کم کردو‘‘۔ لوگوں نے کہا ’’ ہم تو ضرورت مند ہیں، گوشت ہمارے پاس کہاں ہے کہ ہم اس کی قیمت کم کردیں؟ ‘‘ عمر فاروقؓ نے فرمایا: کہ دراصل میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اس کا استعمال کم کردو، کیونکہ جب اس کا استعمال کم ہوجائے گا تو اس کی قیمت بذاتِ خود کم ہوجائے گی۔ سیدناعلی المرتضیٰؓ کے زمانہ خلافت میں مکہ مکرمہ کے اندر کشمش کی قیمت بڑھ گئی۔ لوگوں نے خط لکھ کر کوفے میں موجودسیدنا علی المرتضیٰ ؓسے اس کا شکوہ کیا تو آپؓ نے یہ رائے تجویز فرمائی کہ تم لوگ کشمش کے بدلے کھجور استعمال کیا کرو کیونکہ جب ایسا کروگے تو مانگ کی کمی سے کشمش کی قیمت گرجائے گی اور وہ سستی ہوجائے گی۔ اگر سستی نہ بھی ہوتو کھجور اس کا بہترین متبادل ہے۔ عقلمند وہ نہیں ہے جوہر ماہ پانچ ہزار کما کر چھ ہزار خرچ کرتا ہے بلکہ وہ جو پانچ ہزار کی آمدنی میں اپنے اخراجات ساڑھے چار ہزار تک محدود کر لیتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک جیسی بن چکی ہے۔ شناخت، دعوئوں اور نعروں سے نہیں، کردار و عمل سے بنتی ہے۔ بلاشبہ عمران خان کی اٹھان تبدیلی کے اعلان سے جڑی تھی۔ مگر وہ بھی عوام کو مہنگائی سے چھٹکارہ نہ دلوا سکے ۔ان کی صفوں میں بھی ایسے چہرے گھس گئے تھے،جوہر انتخاب میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے تھے۔ وہ یقینا کوئی کم نصیب لمحہ تھا جب خان صاحب نے زمینی حقائق کے اس فرسودہ تصور کو قبول کر لیا۔کہ ’’فرشتے کہاں سے لائوں‘‘۔جب سوچ منتشر اور بے سمتی کا شکار ہو۔ انگلیاں عوام کی نبض پرنہ ہوں اور محرومیوں کے زخم خوردہ عناصر مشیران خاص ٹھہریں تو اسی طرح کے کارنامے سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ یاد رکھیں! کائنات کی سب سے مہنگی چیز احساس ہے جو دنیا کے ہر انسان میں نہیں ہوتی۔