برصغیر کی تہذیبی ، تمدنی اور فکری دنیا کو ، جن شخصیات نے سب سے زیادہ متاثر کیا ، ان میں سرِفہرست سیّدعلی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخشؒ اور دوسرے سیّد معین الدین حسن سنجری اجمیریؒ ہیں ، جو خطّے میں خواجۂ خواجگان کے نام سے معروف اور معتبر ہیں ۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے 812 ویں سالانہ عرس کی تقریبات گزشتہ دو روز سے روبہ عمل اور عالمی تصوّف کانفرنس کا اختتامی سیشن،آج داتاؒ دربار میں وقوع پذیر ہے ، بلاشبہ اولیاء اُمت کے احوال اور ان کے اقوال پر غور کرنے سے دل میں سرور اور نور پیدا ہوتا ہے، شکوک وشبہات کی تاریکیاں دُور ہوتی ہیں، روح میں تازگی آتی ہے اور قوتِ عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کے مناقب واحوال کے پڑھنے اور سننے سے نہ صرف ان سے عقیدت ،بلکہ ان کے حُسنِ عمل ، نیک کردار اور راست گفتار سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے قرنوں کے بعد بھی اب تک ان کا ذکرِ خیر زبانوں پر جاری ہے اور جس کے باعث ان بزرگوں کو حیاتِ ابدی اور سعادتِ سرمدی حاصل ہے۔ سرزمین پاک وہند اور بالخصوص خطۂ پنجاب کو روشنی اور تابندگی عطا کرنے والی ہستی، مظہر العلوم الجلیہ و الخفیہ ، منبع فیوض و برکات الشیخ السیّد علی بن عثمان الہجویری رحمۃ اﷲ علیہ ہیں۔۔۔ مگر اس آستاں کے فیض کو برصغیر کے شرق وغرب اور جنوب وشمال میں روشناس کرا کے عقیدتوں اور محبتوں کے چراغ، جس ہستی نے فروزاں کیے وہ خواجۂ خواجگان، نائبِ رسول اﷲ فی الہند، معین الحق والدین حضرت خواجہ معین الدین حسن سجزیؒ ہیں۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کی مدح میں ، آپؒ کے مزار مبارک کی پائنتی کی طرف دست بستہ کھڑے ہو کر کہا ہوا آپ ؒ کا شہرۂ آفاق اور معروف شعر: گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نور خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما زائرین کے لیے حرزِ جاں اور متوسلین کے لیے وجہِ ایقان ہے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کا وصال 465ھ میں،جبکہ خواجہ بزرگؒ کا سالِ ولادت 534ھ ہے اور آپ ؒ کی ہندوستان آمد اور لاہور میں حاضری کا زمانہ حضرت داتاگنج بخش ؒ کے وصال سے تقریباً سوا سو سال بعد کا ہے ۔’’تحقیقاتِ چشتی‘‘ کے مطابق سلطان محمود غزنوی کے برادر زادہ ظہیر الدولہ سلطان ابراہیم بن سلطان مسعود غزنوی نے ابتدائی طور پر حضرت داتا ؒ کے مزارِ اقدس کی تعمیر کروائی۔ اگرچہ سلاطینِ زمانہ کی اس اوائل دور میں حاضری اور نیازمندی اس آستاں کی عظمت اور سطوت کا پتہ دیتی ہے ، مگر صاحبانِ طریقت ومعرفت کے نزدیک حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کا اس مقام پر قیام اور پھر برکات کے حصول کے بعداس معروف شعر کی صورت میں اس کا اظہار اور دنیا کو اس آستاں کی عظمت و برکت سے علی الاعلان آگاہی ، خطۂ پنجاب اور بالخصوص شہر لاہور کی تاریخ میں وہ عہد ساز لمحہ ہے جس کے بعد مرقد داتاؒ اور آستانۂ سید ہجویرؒ پر عقیدتوں اور محبتوں کی بہار ہمیشہ نقطۂ کمال پر رہی ، منبع فیوض و برکات کے دَرسے جس نے جو چاہا اس کو میسر آیا ۔ بقول شمس بریلوی:’’یہی وہ قدسی بارگاہ ہے جہاں خواجہ غریب نوازؒ بھی اکتساب ِ فیض کے لیے مقیم رہے۔ یہاں کی خاک اکابرین صوفیاء کے لیے سرمۂ بصیرت اور تاجِ عزت ہے۔ یہی وہ مقام ہے جو آج تک قبلۂ صفا بنا ہوا ہے اور جہاں انوارِ الہٰی ہر وقت برستے ہیں‘‘۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے آستاں کی وسیع وعریض اور عالی شان مسجد اور خانقاہ اپنے اپنے وقت کے اولیاء اور صوفیاء کی سجدہ ریزیوں سے معطر ہے لیکن مزارِ اقدس کی پائیں، حجرۂ اعتکاف حضرت خواجہ غریب نوازؒ ناز ونیاز اور طریقت و معرفت کا ایک جہاں سمیٹے، جس انداز میں محبت وگداز اور تجلیات وبرکات کی دولت فراواں کر رہا ہے اس کا رنگ ہی نرالا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت داتا گنج بخش ؒ کے آستاں پر، اگرچہ ہر دَور میں، تمام سلاسل کے اکابر بزرگوں نے حاضری کو وجۂ اعزاز و افتخار جانا، لیکن یہاں کی خانقاہی رسومات میں چشتیہ رنگ قدرے غالب رہا ۔ محافل سماع ،داتا دربار کی تقریبات کا جزوِ لا ینفک ہے، اور یہاں پر موجود’’سماع ہال‘‘کی مثال بھی برصغیر میں کہیںمیسر نہ آ سکی ۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کا آستاں باہمی محبتوں کا امین اور انسان دوستی و رواداری کا علمبردار ہے۔ اسی محبت،رواداری،انسان دوستی اور احترامِ آدمیت کی خوشبو حضرت خواجہ خواجگانؒ کے وسیلہ سے برصغیر میں عام ہوئی ۔حضرت خواجہ بزرگؒ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو دریا جیسی سخاوت،آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع پیدا کرنی چاہیے۔۔۔ کہ ان کی فیاضیاں اور کرم گستریاں اپنے اور پرائے کا فرق نہیں کرتیں اور ہر کس ونا کس کے لیے عام ہوتی ہیں۔ آپؒ سیر الاولیاء میں’’حقیقی عبادت‘‘کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’در ماندگان را فریاد رسیدن وحاجت بیچارگان روا کردن و گرسنگاں را سیر گردانیدن‘‘’’یعنی عاجزوں کی فریاد کو پہنچنا ، ضعیفوں اور بیچاروں کی حاجت روائی کرنا اور بھوکوں کا پیٹ بھرنا ہی حقیقی عبادت ہے ‘‘۔ سلاسل طریقت ۔۔۔ بالخصوص سلسلۂ چشتیہ محبت کی کارفرمایوں سے عبارت ہے ۔ مولانا رومؒ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ کائنات کشش ثقل سے نہیں بلکہ’’جذبۂ محبت ‘‘کے سبب رواں دواں ہے۔ ہر ذرہ اپنے سے برتر ذرے کی طرف کھنچ رہا ہے اور اپنی نفی کرتے ہوئے اپنے سے بہتر شکل میں ڈھلتا چلا جا رہا ہے۔ سلسلۂ چشتیہ کے بانی خواجہ ابواسحاقؒ شام کے رہنے والے تھے، اپنے وطن سے چل کر بغداد آئے اور حضرت علو دینوری ؒ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے۔ خواجہ دینوری ؒ اپنے زمانے کے بلند پایہ بزرگ تھے، عقیدت مندوں کا انبوہِ کثیر ان کی خدمت میں حاضر رہتا ۔ خواجہ فرید الدین عطارؒ نے ’’تذکرۃ الاولیائ‘‘ اور مولانا عبدالرحمن جامی ؒ نے ’’نفحات الانس‘‘میں ان کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اپنی خانقاہ کا دروازہ عموماً بند رکھتے تھے، جب کوئی آتا تو پوچھتے مسافر ہو یا مقیم ؟ پھر فرماتے اگر مقیم ہو تو اس خانقاہ میں آجاؤ، اگر مسافر ہو تو یہ خانقاہ تمہاری جگہ نہیں، چونکہ جب تم چند روز یہاں رہو گے تو مجھے تم سے محبت اور اُنس ہو جائے گا اور پھر تم جانا چاہوگے تو مجھ سے یہ بُعد اور فراق برداشت نہیں ہوگا۔ حضرات صوفیاء اُمت اور اولیائے ملّت محبتوں کے اسی دبستان کے امین اور نگہبان تھے۔ آج جب کہ ہر طرف ایک دہشت اور وحشت انسانیت کو گھیرے ہوئے ہے ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم صوفیاء کے انہی فرمودات سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کی شبِ تاریک کو سحر آشنا کریں۔