آپ، میں اور سارے چاہتے ہیں کہ ہم خیروعافیت سے زندگی گزاریں۔ایک خوش حال اور لمبی زندگی گزارنے پر قادر ہوں۔ ہم ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہوں۔ایک محفوظ زندگی گزاریں۔ایک محفوظ زندگی کا خواب انسان کی فطرت ہے۔یہ کیسے ممکن ہے؟۔ عموماً سمجھا جاتا ہے یہ ایک مشکل کام ہے قطعا ً نہیں۔یہ کام آپ میں سب کر رہے ہیں۔انسان تو انسان حیوان بھی اس کوشش میں رہتے ہیں۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ شیر کا شکار جانور جس رستے سے شکار کا نشانہ بنتا ہے اس کے ساتھی وہاں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں بھاگ جاتے ہیں یا کبھی کبھی مل کر شیر پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی خواہ سال دو سال میں ایک بار ہی سہی شیر سے اپنے بہن بھائی یا کنبے کے فرد کو بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس سارے عمل کے پیچھے سوچنے کی قوت ہے۔انسان کی عمر چھ ارب سال ہو چکی ہے۔ اس چھ ارب سال کی تاریخ خوف، موت اور خوشی کی ارتقائی منازل انسان کے اندر ہیں۔وہ کیسے خوش رہ سکتا ہے وہ کیسے آزاد فکر ہو سکتا ہے۔وہ ذہنی دبائو سے کس طرح بچ سکتا ہے۔ انسان اس کرہ پر ساٹھ لاکھ سال سے رہنے شروع ہوا یعنی ہماری عمر ساٹھ لاکھ سال ہے۔مگر ستر ہزار سال پہلے ہی ہماری رہتل نے جنم لیا۔کیسے رہنا ہے؟ کون اپنا ہے کس کو ہم اچھے نہیں لگتے۔ اگر ہمارے آباواجداد میں سوچنے کا مادہ نہ ہوتا تو عین ممکن تھا ہم بھی کئی اور نسلوں کی طرح نیست و نابود ہو چکے ہوتے۔ہمارے آباواجداد میں یہ سوچنے کی طاقت تھی کہ ہم جنگل میں محفوظ ہیں یا غار میں زیادہ راحت سے زندگی گزار سکتے ہیں۔جنگل ان کی خوارک اور غار رہائش کے ضروری تھا۔ اٹھارہ لاکھ سال پہلے ہمارے بڑوں نے سوچنا شروع کر دیا تھا۔جب انہوں نے سوچنا شروع کیا تو ان کے لیے یہ ایک حیرت انگیز بات نہیں تھی۔ان کی زندگی میں یہ ایک معمول کا واقعہ تھا۔بعینیہ جیسے آج ہم جہاز پر سفر کرتے ہیں اور کھانے کو فریز کر لیتے ہیں۔ہوائی جہاز کے سفر کے دوران ہمیں نہ جہاز کے اتنا اونچا اڑنے پر حیرت ہوتی ہے نہ دوران سفر گرم کھانا ملنے پر۔ٹھنڈا کھانا سرو کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ایسا سوچنا حماقت ہے،بیس لاکھ سال سے لے کر پچاس ہزار سال قبل انسان بولنے پرقادر ہو گیا۔ہومو ایریکٹس ہمارے بڑے نے زبان سے لفظ ادا کیا۔ تو اسے قطعاًخود پر حیرت نہیں ہوئی تھی۔ ابھی مریخ پر ہیلی کاپٹر بھیجا گیا ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔امریکہ کا صدر اپنے ساتھیوں سمیت اسامہ بن لادن پر حملے کو لائیو دیکھ رہا تھا۔ ہزاروں کلومیٹر دور کیا ہونے والا تھا انہیں معلوم تھا وہ اپنے تئیں خود کو محفوظ بنانے ہی کے جتن کر رہے تھے۔ زبان سیکھنے کا عمل آج سے پچاس ہزار اور ڈیڑھ لاکھ سال کے درمیان جاری ہوا۔ایک لاکھ سال تک انسان اس قابل نہیں تھا کہ الفاظ کے ذریعے اپنا مقصد بیان کر سکے،چھبیس لاکھ سال پہلے انہوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ خوراک کے لیے اپنے ساتھی جانوروں سے گوشت حاصل کیا جا سکتا ہے۔چودہ لاکھ سال پہلے ساگ اور اس سے ملتی جلتی چیزیں انسان کی خوراک کا جزو بننا شرور ہو گیا تھا۔ بولنے سے پہلے انہوں نے سوچنا شروع کیا اور اپنا مطلب غاروں میں لکھے یا بنے خطوط سے لگتا ہے۔جو کچھ بگ بینگ میں استعمال ہوا وہ سب کچھ ہمارے جسم میں موجود ہے یعنی اس کائنات کے وجود کے ساتھ ہی ہمارا جسم بھی وجود میں آ گیا تھا۔اس عظیم دھماکے میں جو آکسیجن ہائیڈروجن کاربن نائیٹروجن کیلشیم پوٹاشیم سلفر وغیرہ حیاتیاتی اجزا شامل تھے یہی سب مل کر انسانی جسم بناتے ہیں۔گویا مجموعی طور پر ہماری عمر ساڑھے تیرہ ارب سال ہے۔یا ہم اس وقت اس عظیم دھماکے میں باقاعدہ موجود تھے۔اگر وہ دھماکہ نہ ہوتا تو ہم بھی نہ ہوتے اور کائنات بھی نہ ہوتی۔اس لیے اہمیت صرف Presentism یعنی موجود کو ہے لمحہ حال کو ہے۔ ارنسٹ بیکر نے 1970 میں موت سے انکارThe Denial of Death نامی کتاب لکھ کر بکر انعام حاصل کیا تھا، جس میں اس نے کہا تھا جانور کو اپنی موت کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے مگر اب کہا جاتا ہے نہ صرف انہیں موت محسوس کر سکتے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کی موت کا غم بھی ہوتا ہے۔سانس کا کہنا ہے کہ اصل بیماری ذہنی ہوتی ہے۔اسے Host of All Deceasesکہا جاتا ہے۔دو ہزار اکیس اس وجہ سے انتہائی اہم ہے کہ اٹلی ہالینڈ سنگاپور اور امریکی سانس دانوں نے کہا ہے کہ موت تو فی الحال اٹل ہے مگر انسانی زندگی اپنی سو بیس سے ایک سو پچاس سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔اس میں سب سے ضروری ذہنی دبائو سے چھٹکارا ہے۔ذہنی دباؤ انسان کی باقی صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتی ہے۔ درست کیا غلط فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔سوچنا انسان کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ یہی انسانی ذات کے اظہار میں بنیادی پتھر کا کردار ادا کرتی ہے مثلاً کیا بولنا ہے اور کب بولنا ہے؟ کیا بولنا ضروری بھی ہے یا نہیں؟۔ڈیپریشن جب سوچنے کی صلاحیت کو ختم کرتی ہے تو یاد کا خانہ بھی خالی ہو جاتا ہے۔یہاں جنیڈر کی بنیاد پر ڈیپریش کی ناپی جا سکتی ہے۔عورت میں ڈیپریش ہونے کے مرد سے دوگنا زیادہ چانس ہوتے ہیں۔اگر اس جاری صدی میں آدمی اس میں کامیاب ہو گیا تو یہ بات ہمارے لیے حیرت کی بات ہو گی مگر ہماری آنے والی نسلوں کے لیے یہ محض ایک امر واقعہ یا حقیقتِ حال ہو گی۔