بچپن سے ایک کہانی پڑھی تھی۔ جس میں ایک چرواہے کے بیٹے کا ذکر ہوتا ہے جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ورغلاتا ہے کہ اس کی بکریوں پر شیر نے حملہ کر دیا ہے۔ لوگ جب جنگل میں جاتے ہیں تو وہاں شیر نہیں ہوتا دو تین بار یہ واقعہ ہوتا ہے۔ لوگ چرواہے کا اعتبا ر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک دن اصل میں شیر آجاتا ہے چرواہا شور مچاتا ہے کہ شیر آگیا ہے مگر بستی سے کوئی نہیں آتا۔شیر ایک ایک کر کے تمام بکریاں مار دیتا ہے۔ پاکستان کا یہی حال ہے۔ 75 سال سے پاکستان کے لوگ ایک ہی فقرہ سنتے آئے ہیں کہ ملک اس وقت بہت نازک دور سے گذر رہا ہے۔ کبھی کوئی نجات دہندہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ ملک اس وقت بہت نازک دور سے گذر رہا ہے میں ملک کو اس موقع پر بچانے آگیا ہوں۔کبھی کوئی سیاستدان آتا ہے۔ اور کہتا ہے ملک اس وقت بہت نازک دور سے گذر رہا ہے خزانہ خالی ہے۔ ہم پچاس سال سے ایک ہی فقرہ سنتے آئے ہیں کہ خزانہ خالی ہے۔ جب وہ حکومت چلی جاتی ہے تو کہتی ہے جب ہم گئے خزانہ بھرا ہوا تھا ، عوام کو آج تک پتہ نہیں چلا کہ خزانہ کب خالی ہے اور کب بھر جاتا ہے۔ اس وقت شیرآگیا ہے اور اس بار لوگ کسی کا اعتبار بھی نہیں کریں گے۔ ملک اس وقت بد ترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ معاشی طور پر ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں صرف سرکاری اعلان ہونا ہے۔اس وقت معاشرہ جس تقسیم کا شکار ہے اسکی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔ عدلیہ تقسیم ہو چکی ہے ۔ وکیلوں کے دو گروپ ہیں ایک حکومت کو سپورٹ کر رہا ہے اور دوسرا چیف جسٹس کو۔ آدھی پارلیمنٹ گھر بیٹھی ہے اور آدھی پارلیمنٹ جو دل میں آئے وہ قوانین بنا رہی ہے۔ اس وقت چار صوبوں میں سے دو میں نگران سیٹ اپ ہے۔ قومی اسمبلی کے نصف ارکان اسمبلی سے فارغ ہیں۔ اب کیا اخلاقی جواز باقی ہے اس حکومت کے رہنے کا۔ پورے ایک سال میں کوئی قانون سازی ایسی نہیں ہوئی جس کا عوام کو فائدہ ہو۔ نیب کے قانون میں ترمیم ہوئی فائدہ کس کو ہوا ایک خاص طبقے کو۔ سڑکیں بنتی ہیں فائدہ صرف ٹھیکیدار اور حکومت کو اراکین کو ہوتا ہے۔ اس وقت پنجاب میں ترقیاتی کام بڑی زور شور سے جاری ہے۔ بہت سے سڑکیں برائے نام کارپٹ ہو رہی ہیں۔ ہر حلقہ میں لوگوں کو پتہ ہے کون سے ٹھیکیدار اصل ہیں اور کون سے ایم این اے اور ایم پی ایز کے فرنٹ میں ہے۔ اربوں روپے کے پرا جیکٹ ہیں اور کروڑوں کی اصل لاگت ہے۔ آپ کسی بھی ٹھیکدار سے پتہ کر لیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ عوامی نمائیندوں کا حصہ کتنا ہے اور محکمہ کا کتنا حصہ ہے۔ جو نصف بچتا ہے اس میں سے ٹھیکدار بھی کماتا ہے۔ عوام کے نام پر بریانی کی دیگ پکتی ہے اور عوام کو دو چار پلیٹ پر ٹر خا دیا جاتا ہے اور باقی ساری دیگ پکانے والے لے جاتے ہیں۔ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ آنے والہ ایک ہفتہ پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم ہفتہ ہے۔ اس ہفتہ میں بہت کچھ ہو سکتا ہے اور کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو پہلے کبھی نا ہوا ۔ اس وقت پنجاب میں الیکشن ہونگے یا نہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عدالت ایک فیصلہ دیتی ہے اور حکومت دوسرا قانون بنا دیتی ہے۔ نا حکومت عدالت کا فیصلہ مان رہی ہے اور نا عدالت پارلیمنٹ کا فیصلہ۔ اس وقت صرف ایک ادارہ جو اس وقت تقسیم نہیں ہے جس دن وہ تقسیم ہو گیا ملک کے لئے بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن اتنا بڑا ایشو نہیں ہے۔ یہاں پہلے بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی اگر دوبارہ وہ حکومت آجاتی ہے تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ موجودہ حکومت نے ضد بنا لی ہے کہ وہ کسی بھی طور پر الیکشن نہیں کرائے گی۔ الیکشن سے فرار تو ڈکٹیٹر وں کے لئے بھی ممکن نہ تھا۔ ضیا نے الیکشن نہیں کروائے پھر ایک بار اسکو الیکشن کروانے پڑے۔ مشرف نے ایک بار اپنی پارٹی بنائی دوسری بار اس کو بھی اقتدار ان لوگوں کو دینا پڑا جن کو وہ دینا نہیں چاہتے تھے۔ اب یہ حکومت تو سیا سی ہے مگر ایسی سیاسی حکومت ہے جو الیکشن سے ڈر رہی ہے۔ جب ان کو یقین ہے کہ عمران خان نے ملک کو تباہی سے دوچار کر دیا تو انکو کوئی فکر نہیں ہونی چاہیئے – انکو یہ الیکشن بھی جیتنا چاہیے اور اگلہ الیکشن بھی۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز نے شہباز شریف کو قربانی کا بکرا بنا دیا ہے اگر شہباز شریف نااہل ہو جاتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ نواز میں مریم شہباز کا کوئی حریف نہیں ہوگا۔ اس کشمکش میں جیت دو افراد کی ہے ایک آصف علی زرداری جنہوں نے پاکستان مسلم لیگ نواز کو پنجاب میں وہاں پہچا دیا ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی پہچ گئی تھی۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں جتنی تنگ ہے اس کا ادراک مشکل ہے اس وقت پھل اور دودھ اور گوشت خوراک دوائی کا درجہ لے چکے ہیں۔ اب عام آدمی ان چیزوں کو صرف دوائی کے طور پر لیتا ہے اور یاد رہنا چاہئے دوائی کبھی خوشی سے نہیں لی جاتی۔ مجبوری سے لی جاتی ہے۔ اگر آج دو نمبر دودھ مارکیٹ سے ختم ہو جائے تو دودھ کی قیمت 250 روپے فی لیٹر سے اوپر چلی جائے گی۔ اور اس کا مطلب ہے کہ چائے کا کپ پچاس روپے سے 100 روپے پی چلا جائے گا۔ جہاں مزدور کی مزدوری 800 روپے ہے۔ وہاں صرف چائے پر 300 روپے خرچہ ہو جائے روٹی کا آپ خود سوچ لیں۔ جس دن عوام کو یہ پتہ چل گیا کہ اس دھندے میں انکا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اس وقت سارا ڈھانچہ بکھر جائے گا۔ ابھی وقت ہے ارباب اختیار کے پاس توبہ کا آخری موقع ہے ۔