بے شمار ابھرنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے کے بجائے ہم یہ بھی جاننے کا تکلف نہیں کر رہے کہ ہمارا پورا نظام شکست و ریخت سے کیوں دوچار ہے؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ہم سب اپنے مزاج اور مفاد کے اسیر ہو گئے ہیں ہم غلطیوں پر غلطیاں کرتے ہیں غلطیوں سے سبق سیکھنا تو کجا ہم اپنی غلطی کو غلطی تسلیم نہیں کرتے۔اس لئے آپ آج دیکھ لیں ہم ایک عمودی چٹان پر کھڑے ہیں جس کے آگے گہری کھائی ہے۔ہر طرف مایوسی اور غیر یقینی ، پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ہم نے کبھی اس حقیقت پر غور ہی نہیں کیا کہ آسمان سے ٹوٹے تارے اور اپنی بنیاد سے اکھڑی قوموں کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ہم نے کبھی اس معاملے پر غور نہیں کیا کہ ہمارے نئی نسل کے بچے اور جوان اس زمین کی آئیڈیالوجی اس کے کلچر اور اس کے بیک گرائونڈ سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں، عمر رسیدہ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو اس وطن کے لئے متفکر دکھائی دیتے ہیں ان میں پاکستان اور پاکستانیت زیادہ رچی بسی دکھائی دیتی ہے۔وہ نسل تو اب کم و بیش ختم ہو رہی ہے جنہوں نے آزادی کے لئے ہجرت کے دکھ سہے۔ جنہوں نے ہندوئوں کے ظلم و ستم سہے جنہوں نے گھر بار چھوڑے جنہوں نے اپنے آدھے آدھے خاندان کو کٹوا کر آزادی دیکھی۔ ہمارے نوجوان بڑے باصلاحیت ہیں۔ہمارے ہاں خواندگی کی شرح اورنوجوان بچیوں اور خواتین میں اپنے حقوق کے لئے آگہی بڑھی ہے۔وہ اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ ان میں سے بیشترنے ایک صدی سے دوسری صدی میں قدم رکھا ہے۔دنیا کو حیرت انگیز ترقی کرتے دیکھا ہے،اس سے مستفید ہوئے ،غیر ممالک کا سفر اور ترقی یافتہ دنیا میں قدم رکھنا ان کا خواب ہے۔وہ اپنی ذہانت اور محنت کا سکہ جما رہے ہیں لیکن نجانے کیوں وطن عزیز کے حالات پر نئی نسل مجھے اتنی متفکر نظر نہیں آتی۔ ان میں وہ جذبات نظر نہیںآتے جو بز رگوں نے ٹرانسپیٹ کئے، جو چھوٹے شہروں سے ابھرے، سچ پوچھیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ نظریاتی عدم توجہ فکری ،تربیت کی ،معیشت کا خوف ،پرانی اور نئی نسل کے درمیان اتنی بڑی خلیج بن کر حائل ہو چکا ہے کہ وہ اب اپنے اپنے کناروں پر کھڑے ہو کر ایک دوسرے کی آواز نہیں سن پا رہے۔یہ ہمارا ایک ایسا معاشرتی مسئلہ ہے جس پر غور و فکر نہیں ہوتا۔ دوسری جانب سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل رابطہ ہے اس نے سب کچھ سمیٹ دیا۔اس کے ذریعے سیاسی میدان میں لگے تماشے دیہاڑی لگانے کے لئے وافر مواقع فراہم کر رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا سے لائکس اور شیئرز کے حصول کی ہوس کو تسکین مل جاتی ہے ہر کوئی اپنی دانشوری جھاڑ رہا ہے۔اس لئے سوشل میڈیا پر سیاسی معاشرتی اور سماجی موضوعات پر کئے جانے والے تبصروں میں حقائق کو اجاگر کرنے سے زیادہ خواہشات کا زیادہ رنگ دکھائی دیتا ہے خیر یہ ایک الگ سبجیکٹ ہے اور انٹرٹینمنٹ ایک مختلف عنوان ہے اس لئے انٹرٹینمنٹ میں آپ جتنا چسکا اور چٹخارہ ڈالنا چاہیں دیکھنے اور سننے والے کو چونکانے، لبھانے اور حیران کرنا چاہیں ضرور کریں لیکن خبر کو پھلجڑی کی طرح چھوڑنے اس میں چسکا ڈالنے اور اس کے عنوان کو چٹ پٹا سسپینس اور ہیجان خیز بنانے میں اپنی ساری پھرتیاں اور مہارتیں ضائع نہ کریں کیونکہ خبر کی سچائی ہی درحقیقت اس کی ساکھ اور ایک رپورٹر کی کریڈیبلٹی ہے ۔پھر تبصروں میں آپ کا نقطہ نظر اور اسے پرکھنے کا زاویہ نگاہ آپ کا اپنا ہونا چاہیے لیکن اس تبصرے اور تجزیے کو آپ جس خبر کی بنیاد پر بیان کرتے ہیں وہ خبر درست ہونی چاہیے۔ اب ذرا سیاسی میدان کی طرف ایک نظر ڈالیں تو 9اور 10مئی کے واقعات نے سچ مچ حالات کو تخت یا تختہ کی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے ۔کئی نئے سوالات سر اٹھا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اندھی نفرت اور عقیدت کے اس تباہ کن موسم نے بے شمار لوگوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔چند دن پہلے تک جہاں ایک جانب سے بڑی بے نیازی کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کو تمام مسائل کا حل قرار دیا جا رہا تھا وہاں دوسری جانب حکومتی صف آرا اتحادی کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر غچہ دینے کی کوشش میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ضد اور اناپرستی کی سیاست نے نہ صرف ہر کمزور دل پاکستانی کو پریشان کر رکھا تھابلکہ ہر کوئی حالات پر اداس اور غیر یقینی کا شکار دکھائی دیتا تھا لیکن 9اور 10مئی کو رونما ہونے والے افسوسناک اور حیران کن واقعات کے سبب کئی نئے سوالات ابھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ بحران زیادہ گہرا ہو گیا ہے مجھے آج نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم یاد آ رہے ہیں کراچی میں اپنے دیرینہ ساتھی مشتاق مرزا کے گھر ان سے جب بھی اور جن حالات میں ملاقات ہوتی۔ایک چھوٹے سے کمرے میں چارپائی پر دراز تکیہ سے ٹیک لگائے قریب رکھے حقے کا کش لگاتے ہوئے وہ مجھے کبھی مایوس دکھائی نہیں دیتے۔وہ کہتے تھے کہ لڑائی کو آپ کتنا ہی بڑھا لیں۔بالآخر سیاسی معاملات میں مفاہمت ہی مسئلے کا حل ہوتا ہے اور مفاہمت ہمیشہ میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر ہوتی ہے۔وہ بتا رہے تھے کہ جب ایوب خان نے اپنے خلاف تحریک کے بڑھتے ہوئے زور کے بعد گول میز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو میں نے فیلڈ مارشل کو مشورہ دیا کہ اگر آپ کانفرنس کو کامیاب اور بامقصد بنانا چاہتے ہیں تو شیخ مجیب کی شرکت کو یقینی بنائیں ابتدا میں ایوب خان راضی نہ تھے لیکن میں نے انہیں قائل کیا کہ شیخ مجیب کی آواز مشرقی پاکستان کی سب سے توانا آواز ہے ہمیں انہیں سننا چاہیے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ یہ ہو نہیں سکتا کہ ان کی تمام باتیں غیر منطقی ہوں ہمیں ان سے بات کر کے انہیں سمجھنے کا موقع ملے گا بالآخر ایوب خاں شیخ مجیب کو پیرول پر رہا کرنے اور کانفرنس میں مدعو کرنے پر راضی ہو گئے۔میرے خیال میں آج کے سیاسی منظر میں عمران خان سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ زمینی حقائق کو نہ سمجھ سکے۔ جیت ہمیشہ طاقت کی ہوتی ہے اور ان کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ اپنی ہر بات منوا سکیں ،محض طنطنے کی خاطر فیصلے کرنا آپ کو خود اپنے عمل کی زد میں لے آتا ہے۔فکر میں دور تک نظر رکھنے ‘ لہجے میں انکساری سیاسی گفتگو میں الزامات لگانے کے بجائے تدبر و فراست ایک بڑے لیڈر کا بنیادی وصف ہونا چاہیے ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیاسی کتاب کے پہلے ورق کا بنیادی سبق ہے۔خان صاحب ہم آپ کو اس وقت سے جانتا ہوں جس دن آپ نے 1977ء میں آسٹریلیا میں کوئنز لینڈ کے خلاف مشتاق محمد کی کپتانی میں اپنی تباہ کن بولنگ سے نہ صرف خود کو پہلی بار ایک حقیقی فاسٹ بولر کے طور پر منوایا تھا۔بلکہ ویون رچرڈز جیسے عظیم بیسٹمین کو آپ کو طوفانی گیندوں کے سامنے پہلی بار ڈگمگاتے دیکھا تھا۔آج سیاسی میدان میں آپ کو پہلی بار ڈگمگاتے دیکھ رہا ہوں۔کہنا یہی ہے کہ سیاست کرکٹ کا کھیل نہیں۔ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں۔پیچھے مڑ کر دیکھ لیں۔ہر گیند پر وکٹ نہیں ملتی چھکا بھی لگ سکتا ہے اور ایک غلط شاٹ بیسٹمین کو پویلین کا راستہ دکھا سکتا ہے۔