قومی سیاست نائن الیون کے بعد سے سکیورٹی امور کے ساتھ بندھ چکی ہے۔میرے سامنے جو نقشہ ہے وہ سکیورٹی اور معیشت کی سرحدیں جوڑتا ہے ۔اس نقشے سے ہی کچھ تصاویر مکمل ہوتی ہیں ۔ بعض واقعات کے تناظر میںپاک فوج کی قیادت اگر بار بار افغانستان کو ٹی ٹی پی کے ٹھکانے ختم کرنے کا کہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان اس مسئلے کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک، بشمول پاکستان ،کے خلاف استعمال نہیں ہورہی، انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی کوئی پناہ گاہ موجود نہیں۔ذبیح اللہ مجاہد کا یہ دعویٰ نا قابل یقین ہے ۔حقائق کوئی اور تصویر پیش کر رہے ہیں۔پاکستان کے پاس متعدد ثبوت ہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کمانڈروں کو پناہ دیتے ہیں۔ ایک واقعہ تحریک طالبان کمانڈر یاسر پرکے کا ہے جو پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر کئی حملوں میں ملوث تھا ۔یہ کمانڈر کابل میں بھرپور میزبانی سے لطف اندوز ہوا۔ اسے خصوصی پرواز کے ذریعے کنڑ سے لایا گیا اور کابل میں صدارتی محل کا دورہ بھی کروایا گیا۔ کیا طالبان کی اعلیٰ قیادت مفتی نور ولی محسود، حافظ گل بہادر اور علیم خان خوشحالی، برمل، خوست اور لمن میں رہائش پذیر نہیں؟ ذرائع کئی طرح کی معلومات دے رہے ہیں ۔ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود نے برمل میں واقع ایک تربیتی کیمپ کا دورہ کیا۔وہاں پر ان کا بھرپور انداز میں استقبال ہوا، کیا ذبیح اللہ مجاہد اب بھی یہی کہیں گے کہ ٹی ٹی پی کا افغانستان میں نام و نشان تک نہیں؟ ایک کیمپ خودکش بمباروں کو تربیت دیتا ہے، خوست میں واقع اس مرکز کو مفتی احمد شاہ چلا رہے ہیں۔ وہ امیر حافظ گل بہادر کے قریبی دوست ہیں اور حافظ گل بہادر گروپ کی تمام اہم کارروائیوں کا حصہ ہیں۔ کنڑ کے علاقے شونکرے میں بھی خودکش بمبار ٹریننگ مرکز موجود ہیں جو کہ پاک افغان سرحد سے 3.3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دہشت گرد کمانڈر مولا صابر عرف سنگین مرکز کا انچارج ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) عسکریت پسند نیٹ ورکس کا ایک اتحاد ہے جو 2007 میں پاکستانی فوج کے خلاف سرگرم گروپوں کو متحد کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ٹی ٹی پی کے بیان کردہ مقاصد میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں اسلام آباد کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہے، پورے پاکستان میں شریعت کی سخت تشریح کا نفاذ اور افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلا شامل تھا۔انخلا کے بعد بھی ٹی ٹی پی افغانستان میں کیوں موجود ہے؟ ٹی ٹی پی کے رہنما یہ بھی کھلے عام کہتے ہیں کہ یہ گروپ پاکستان میں ایک اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتا ہے جس کے لیے پاکستانی حکومت کا تختہ الٹنا پڑے گا۔ ٹی ٹی پی نے تاریخی طور پر القاعدہ کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات بنا رکھے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے پہلے رہنما بیت اللہ محسود کا انتقال 5 اگست 2009 کو ہوا اور ان کے جانشین حکیم اللہ محسود کا 1 نومبر 2013 کو ۔ ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ نے نومبر 2013 میں ملا فضل اللہ کو گروپ کا رہنما مقرر کیا۔ فضل اللہ سخت گیر تھا اور سخت ہتھکنڈوں کی حمایت کرتا تھا۔ افغان طالبان کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تعلقات برسوں کے دوران استوار ہوئے۔ ٹی ٹی پی نے اپنے قیام کے وقت افغان طالبان کی توسیع کا دعویٰ کیا تھا۔ دی لانگ وار جرنل میں روگیو نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان دونوں نے برسوں سے ایک دوسرے کی مدد کی۔ ٹی ٹی پی کے متعدد تربیتی کیمپ افغان سرزمین پر بغیر کسی رکاوٹ یا دباؤ کے کام کرتے رہتے ہیں، وہاںبڑے اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں اور عسکریت پسندوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ ان تمام شواہد سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔پاکستان کی معیشت دہشت گردی کی وجہ سے تباہ ہوئی ہے ۔ملک میں استحکام اور خوشحالی کی خاطر امن کا قیام ضروری ہے۔امن کا ایک مطلب یہ ہے کہ پاک فوج کے سوا ملک میں کوئی مسلح ادارہ یا گروہ نہیں ہو گا۔ امریکی انخلا کے وقت افغان طالبان نے دنیا کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، افغان طالبان نے اقرار کیا تھا کہ وہ اپنی سر زمین کسی ہمسایہ ملک کی سلامتی کے خلاف نبرد آزما گروہوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔آج یہ وعدہ ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے کہ طالبان ٹی ٹی پی کی اپنے ملک میں موجودگی سے انکار کر رہے ہیں۔بلوچستان، اندرون سندھ اور قبائلی اضلاع میں ٹی ٹی پی کی کارروائیاں بڑھ رہی ہیں۔سکیورٹی فورسز کے جوان شہید ہو رہے ہیں ۔افغان حکام کو انتباہ کیا جا رہا ہے لیکن انکار کا لہجہ بدستور موجود ہے۔ افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں تیز کرنا ہوںگی ۔پاکستان خطے میں خودافغانستان سمیت دیگر ممالک کی شراکت میں منصوبے شروع کرنے جا رہا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ہونے والی تباہی نے افغانستان اور پاکستان پر شدید اثرات مرتب کئے ہیں،خصوصا پاکستان اپنی معاشی اور سٹریٹجک حیثیت کو بچانے کے لئے از سر نو حکمت عملی ترتیب دے رہا ہے ،اس حکمت عملی میں ٹی ٹی پی سمیت کئی گروہ ایک رکاوٹ کی صورت سامنے آئے ہیں ۔افغان طالبان نے کئی امور میں بہتری پیدا کی ہے ۔پاکستان توقع کرتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے معاملے پر بھی پیشرفت دکھائی جائے گی ،ایسا نہ ہوا تو پاکستان اپنے دفاع کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر دو ٹوک انداز میں کہہ رہے ہیںکہ اگر افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی کی پنا گاہوں کو نشانہ نہیں بناتی تو پاکستان کو مجبوراًْسخت کارروائی کرنی پڑے گی۔