فلسطینیوں کے اوپر جب بھی برا وقت آتاہے تو سب سے پہلے ہم عالمی ضمیر کو صلواتیں سنانا شروع کردیتے ہیں۔اسرائیل ،برطانیہ اور امریکہ تو ویسے بھی ہروقت ہماری زبانی توپوں کی ہٹ لسٹ پر رہتے ہیں یوں ان دنوں ان ملکوں پر ایسی چاندماری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہم ستر سالوں سے ارض فلسطین کی اس طرح اخلاقی حمایت کرتے کرتے تھک گئے لیکن آج تک یہ نہیں سوچا کہ فلسطینیوں کے معاملے میںملامت کے زیادہ مستحق اُن کے اپنے ’’ تربُور‘‘ ہی ہیں۔’’تربور‘‘ پشتو زبان کا وہ مخصوص لفظ ہے جس کا استعمال پشتونوں کے ہاں فرسٹ کزن کے لئے کیاجاتاہے۔اس رشتے میں بندھے ہوئے ان دو رشتہ داروں کے درمیان اگرچہ درون خانہ مخاصمت اور حسد کی فضا بھی قائم رہتی ہے لیکن بیرونی دشمن کیلئے مقابلے میںیہ دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے نظرآتے ہیں۔خدانہ کرے تربور اگر آڑے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چھوڑکربزدلی کا مظاہرہ کرے تو پھر یہ اس قوم کے بچے بچے کی نظروں میں بھی گرنے لگتاہے۔فلسطین مشرق وسطیٰ کا وہ تاریخی علاقہ ہے جو انبیاء کی سرزمیں کے نام سے مشہور ہے ،جس کے اطراف میں شام ، اردن ، مصر ، سعودی عرب، یمن ، عراق، لبنان، عمان، متحدہ عرب امارات، قطراور بحرین کی صورت میں عرب جبکہ ترکی اور ایران کی صورت میں عجمی ملک آباد ہیں۔ گویا مذکورہ عرب ممالک، مظلوم فلسطین کے وہ تربور ہیں جن میں سے اکثرفلسطینی بھائیوں کے ساتھ مذہب کے علاوہ لسانی اور خونی رشتہ میں بھی بندھے ہوئے ہیں ۔لیکن بدقسمتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کہ ہرطرف سے اپنے تربوروں میں گھرا ہوا فلسطین آج بھی مظلومیت کی اسی طرح قابل رحم تصویر بنا ہوا ہے۔ اسرائیل کی شکل میں ایک خونخوار بھیڑیا ستر سالوں سے انبیاء کے اس گھر میں گھساہواہے اور مسلسل اس گھرکے بچوں ، جوانوں ، بوڑھوں اور خواتین کا جسم نوچ رہاہے جبکہ پڑوس میں درجن بھر تربُور وں نے اس کے باوجودبھی مصلحت اور مفاہمت کی چادر اپنے اوپر تان رکھی ہے۔افسوس،یہ تربُور تو زبانی جمع خرچ میں بڑے ماہر ہیں لیکن عملی حوالے سے اپنے فلسطینی بھائیوں کے لئے مستقل بنیادوں پر کچھ نہیں کرپائے ہیں ۔ماضی کے اسرائیلی مظالم کی داستانوں سے قطع نظر،اس وقت بھی تیس لاکھ کے قریب فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں رہ رہے ہیں جومسلسل گھروں کی مسماری ، مظلومانہ گرفتاریوں اوراپنی زمینیںچھیننے کے مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔بیس لاکھ کے قریب فلسطینی غزہ کی پٹی میں سکونت پذیر ہیں جہاں پر ایک طرف ان کو فضائی بمباری کے شدید خوف کا سامناہے اور دوسری طرف غربت کے ہاتھوں زچ ہورہے ہیں۔خود اسرائیل کے اندر اٹھارہ لاکھ کے قریب فلسطینی بستے ہیں جو پچاس امتیازی قوانین کو فالو کررہے ہیں۔اسرائیل کو نہ صرف اس خطے میں آباد کرکے برطانیہ اور امریکہ نے اپنا فریضہ پورا سمجھا ہے بلکہ سترسال سے ایک لاڈلے بچے کی طرح اسرائیل کی خوشنودی کے لئے ہر وہ سرخ لکیر عبور کررہے ہیں جس کا نہ کوئی عالمی قانون اور نہ ہی انسانیت اور دنیا کا کوئی مذہب اجازت دیتا ہے۔ یروشلم ارض فلسطین کا وہ علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ واقع ہے۔پچھلے سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا جسے چار دن پہلے ڈنکے کی چوٹ پر عملی جامہ بھی پہناکر دم لیا ۔چودہ مئی فلسطینیوں کے لئے ایک اور قیامت کا دن ثابت ہوا جب ہزاروں فلسطینیوں کے اس غیر مسلح اور پرامن احتجاج پرتوپ خانوں اور ڈرون طیاروں سے اندھا دھندفائرنگ اور گولہ باری کرکے پل بھر میںساٹھ سے زیادہ نہتے فلسطینی شہید جبکہ دوہزار سے زیادہ افراد کو زخمی کردیا۔شہداء میں آٹھ کم سن بچے بھی شامل تھے جبکہ باقی کی عمریں سولہ سال اور پینتیس سال کے درمیان تھیں جس پرا مریکہ اوراسرائیل نے فتح اور خوشی کے شادیانے بھی بجائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسرائیلی بھیڑیوں کی اس بے رحمانہ کارروائی اور امریکہ کے سرخ لکیر کو عبور کرنے پر سوائے ترک صدر رجب طیب اردوان کے عالم اسلام کے کسی لیڈر کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑا۔ایردوان ہی وہ پہلے مسلمان لیڈر ہیں جنہوں نے نہ صرف اس مرتبہ امریکہ کی منافقت اور اسرائیلی بربریت کو آڑے ہاتھوں لیابلکہ پہلے بھی انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو کھری کھری سنائی تھیں ۔اسرائیل کو باقاعدہ طور پر ایک دہشتگرد ریاست ڈکلیئر کیا ہے اور امریکہ کو ان سب منافقتوں کا ذمہ دار ٹھہرایاہے۔ اس بات سے کون اختلاف کرے گا کہ فلسطینیوں کی کاز کے بارے میں سب سے زیادہ سنجیدگی اور پُھرتی سعودی عرب کو دکھانی چاہیے جس طرح کہ ایک زمانے میں شاہ فیصل مرحوم جیسے غیور حکمران اس تحریک میں پیش پیش ہوتے تھے ؟ لیکن کتنی بدنصیبی کا مقام ہے کہ اس حوالے سے آج کل سب سے زیادہ سردمہری اور تساہل ہمیں سعودی حکمرانوں کی طرف سے دیکھنے کو ملتی ہے۔