دبئی میں تھا جب مظفر بخاری صاحب کی فیس بک آئی ڈی پر ان کے انتقال کی اطلاع ملی۔ اگلے دن جنازے کا اعلان تھا۔محسوس ہوا ایک محبت بھری چھائوں رخصت ہو گئی۔بخاری صاحب سے بیس سال کا تعلق تھا ۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں 36برس تک انگریزی کے استاد رہے۔ستر کی دہائی میں امروز و مشرق میں فکاہیہ کالم ’’گستاخی معاف ‘‘ کے نام سے شروع کیا۔اسی نام سے بعد میں کالموں اور غیر شائع شدہ تحریروں کا مجموعہ منظر عام پر آیا ۔ مزاج میں سادگی اور بے ساختگی تھی۔ان سے محبت کرنے والے اور ان کے قریب رہنے والے بہت سے لوگ ہیں‘شائد میری طرح سبھی یہ سمجھتے ہوں کہ بخاری صاحب سب سے زیادہ ان سے شفقت کا اظہار کرتے تھے۔ روزنامہ دن کے ایڈیٹوریل سٹاف میں شامل ہوا تو جن کالم نگاروں سے پہلے پہل ملاقات ہوئی ان میں سے ایک پروفیسر مظفر بخاری تھے۔ بخاری صاحب چونکہ ہمارے جوائنٹ ایڈیٹر اور استاد اطہر ندیم صاحب کے دوست تھے اس لئے ان سے تعلق استوار ہوتے دیر نہ ہوئی۔بخاری صاحب سے ان گنت ملاقاتیں رہیں۔ان کی ذاتی زندگی کے کئی گوشے میرے سامنے رہے۔چھ فٹ قامت‘ لہجے میں رچی ٹھیٹ پنجابی‘ بلند قہقہہ‘ سر کے بال انیس سو ستر کے فیشن والے لہر دار‘ باتوں میں خلوص‘ اشعار اور اساتذہ کے تذکروں سے گفتگو کو سجا دیتے۔ بخاری صاحب اطہر ندیم صاحب کی وفات کے بعد مجھ سے زیادہ شفقت فرماتے۔وہ کہا کرتے ’’تم میں مجھے اطہر ندیم نظر آتے ہیں‘‘۔ ایک بار بتانے لگے کہ جب پاکستان بنا تو وہ مشرقی پنجاب سے اپنے خاندان کے ساتھ 4سال کی عمر میں ہجرت کر کے آ گئے۔والد کا انتقال ہوا تووالدہ نے بہت مشکل سے تعلیم دلائی۔بخاری صاحب خود بھی لاہو آ کر تعلیم کے ساتھ کام کاج کرتے رہے۔غالباً ابھی ایم اے انگریزی کیا ہی تھا کہ کسی ملنے والے نے پیکجز والے سید بابر علی کے گھر میں ٹیوشن پڑھانے کا کام دلا دیا۔سید بابر علی اور ان کے گھر والے بخاری صاحب کی صلاحیتوں اور شرافت سے متاثر تھے۔گھر کی خواتین میں وہ بیٹے اور بھائی کے طور پر قبول کر لئے گئے۔ یہ تعلق ان کی وفات تک برقرار رہا۔ بخاری صاحب اپنے پولیس افسر سسر مرحوم کے بہت سے قصے مزے لے کر سنایا کرتے‘ کئی بار کالموں میں ذکر بھی کیا۔ بیگم کافی عرصہ سے علیل تھیں اس لئے بخاری صاحب انہیں چھوڑ کر دور نہیں جاتے تھے۔برسوں پہلے دونوں بیٹیاں اپنے گھر جا چکی تھیں جبکہ بیٹا برطانیہ آباد ہو چکا تھا۔بخاری صاحب اکثر تنہائی محسوس کرتے۔کئی بار ایسے ہوتا کہ روزنامہ دن کے ماڈل ٹائون موڑ پر واقع دفتر میں ہمیں ملنے آتے۔اچانک گھر سے فون آ جاتا۔بخاری صاحب بات ادھوری چھوڑ کر گھر کو دوڑ پڑتے۔وہ اپنی اہلیہ سے محبت کرتے تھے‘ بیگم کے انتقال کے بعد ان کا اکیلا پن مزید بڑھ گیا۔ 2010ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔ایک بار ان سے ملنے گیا۔ ماڈل ٹائون ایچ بلاک میں اتفاق مسجد کے قریب ہی 19ایچ ان کی رہائش گاہ تھی۔ کہنے لگے یہ الماری میں جتنی اردو کتابیں ہیں لے جائو‘ میں نہیں چاہتا میرے بعد ضائع ہو جائیں۔تمہارے پاس ہوں گی تو اطمینان رہے گا کہ کام آ گئیں۔ان دنوں بخاری صاحب نے اپنے ایک دوست افضل صاحب کو ساتھ مہمانوں کے کمرے میں رکھا ہوا تھا۔بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے استاد رہے‘ پھر ان دونوں بھائیوں کے بچے بخاری صاحب سے پڑھتے رہے۔ہم کئی بار ان کا ذکر کرتے تو بخاری صاحب کہتے کہ میاں شریف اچھے آدمی تھے لیکن ان کے بچوں نے تو استادوں کا نام بھی خراب کر دیا۔ بخاری صاحب نے گھر کے سامنے والے حصے میں کچھ کمرے تعمیر کرا کر اکیڈمی بنا لی تھی۔کئی عشروں سے وہ یہاں انگریزی پڑھا رہے تھے۔مجھے کہنے لگے کہ میرے پاس سی ایس ایس اور پرونشل سروس کے امتحان کی تیاری والے دوسو کے قریب طالب علم ہیں‘ بلوچستان ‘ کے پی کے اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے یہ نوجوان آتے ہیں ۔تم انہیں انٹرنیشنل ریلیشنز اور انٹرنیشنل لا پڑھا دیا کرو۔کم تنخواہ کے باعث مجھے اضافی آمدن کی ضرورت تھی۔بخاری صاحن بھلے آدمی تھے کبھی کسی نے فیس نہ دی تو اسے آنے سے روکتے نہیں تھے ۔میں کچھ عرصہ یہاں پڑھاتا رہا۔بخاری صاحب کے سینکڑوں شاگرد اعلیٰ عہدوں پر ہیں لیکن وہ اپنی روایتی سادگی کے ساتھ جیئے۔ اطہر ندیم صاحب کی اہلیہ اور پھر خود ان کے انتقال پر بخاری صاحب تشریف لائے۔ میری والدہ کا انتقال ہوا تو بخاری صاحب تعزیت کیلئے آئے۔پچھلے دو سال سے وہ کہہ رہے تھے کہ مناہل سے ملنے آنا ہے‘ ہر بار ان کی علالت انہیں روک لیتی۔ ایک بار کہنے لگے مجھے ہر وقت ڈیپریشن رہنے لگا ہے ،ارد گرد مایوسی ہے۔ میں نے پوچھا خبروں والے چینل کتنی دیر روزانہ دیکھتے ہیں؟کہنے لگے فارغ اوقات میں یہی دیکھتا ہوں۔ میں نے مشورہ دیا کہ آج سے دن میں دو بار خبریں سنیں ، صبح اور رات کو ۔باقی اوقات میں فلمیں دیکھیں ، پرانے گیت سنیں ، ناول پڑھیں ۔دوستوں کو فون کریں۔ چند ماہ بعد بات ہوئی تو خود ہی بتانے لگے ’’تمہارے مشورے پر عمل کیا ،اب ٹھیک محسوس کرتا ہوں‘‘۔ 2017ء میں روزنامہ 92نیوز کا آغاز ہوا تو میں نے ان سے کالم لکھنے کی درخواست کی۔ہمارے گروپ ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف بخاری صاحب سے واقف تھے۔فوراً کالم شروع ہو گیا۔اس دوران بخاری صاحب کی صحت کے مسائل آنے لگے۔کبھی مسلسل لکھتے کبھی وقفہ آ جاتا۔ اس دوران ان کی بیگم کا انتقال ہوگیا ۔ بخاری صاحب کی تنہائی بڑھ گئی ۔ کوئی چھ ماہ پہلے ملنے گیا تو سارے گھر کو تالا لگا کر بخاری صاحب نے لائونج میں بیڈ رکھوا لیا تھا۔ ایک ڈرائیور تھا ساتھ۔ اس دوران بخاری صاحب کا ہسپتال آنا جانا لگ گیا۔ کوئی دو ماہ پہلے آخری بار بات ہوئی ۔ کہنے لگے تم میرے سچے دوست ہو،میری شرمندگی الگ کہ میں ان سے زیادہ مل نہیں پا رہا تھا ،میں نے پوچھا : سر دیکھ بھال کا کیا انتظام ہے؟ کہنے لگے :بیٹی ماڈل ٹاون میں شفٹ ہو گئی ہے ،وہی سب دیکھتی ہے ۔بخاری صاحب گھنا پیڑ تھے ، ان کا انتقال غریب طالبعلموں، ان کے دوستوں اور علم ادب کا نقصان ہے ۔گستاخی معاف بخاری صاحب آپ نے ہم سب کا نقصان کر دیا۔