غالباً2015کی بات ہے، بھارت کے مشرقی اور انتخابی لحاظ سے اہم صوبہ بہار کے اسمبلی انتخابات کور کر نے کے سلسلے میں اس صوبہ کے طول و عرض کا دورہ مکمل کرنے کے بعد میں واپس دارالحکومت پٹنہ پہنچ گیا تھا۔میں نے جس ہوٹل میں چیک ان کیا، معلوم ہوا کہ ایک سینئر مرکزی وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم لیڈر بھی اسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ لابی میں ان سے علیک سلیک ہوئی اور انہوں نے ڈنر کرنے کیلئے اپنے کمرے میں مدعو کیا۔ خبروں کی کھوج میں صحافی کو کیا چاہئے، لگا کہ چلو کچھ آف دی ریکارڈ یا آن ریکارڈ چٹ پٹی خبر تو مل ہی جائیگی۔ خیر اپنا کام وغیرہ ختم کرنے کے بعد میں ان کے سویٹ میں پہنچا۔ وزیر صاحب صوفے پر براجمان اور ان کے ہاتھوں میں ٹی وی کا ریموٹ تھا اور اس وقت چینلوں پر پرائم ٹائم ڈیبیٹ چل رہی تھی۔ چینلوں کی سرفنگ کرتے ہوئے وہ فون پر بھی مستقل مصروف تھے۔ چند لمحوں کے بعد معلوم ہوا کہ وزیر موصوف تو چینل کے اینکروں کے ساتھ لائیو شو کے دوران محو گفتگو تھے اور ان کو ایک پروڈیوسر یا ایڈیٹر کی طرح مسلسل ہدایات دے رہے تھے ۔ وہ خود شو کا حصہ نہیں تھے۔ مگر اینکر ائیر فون کے ذریعے باضابطہ ان کو سن رہا تھا اور ان کی ہدایات پر عمل بھی کر رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک چینل پر پاکستان یا کشمیر کے حوالے سے کوئی بحث و مباحثہ چل رہا تھا۔ وزیر موصوف فون پر ہدایات دے رہے تھے کہ’’ جو پاکستانی مہمان ہے اس کو یہ سوال کرکے تھوڑا اشتعال دلا دو۔ ڈیبیٹ گرم ہوگئی ہے، اب اسکو تھوڑا ٹھنڈا کرو۔‘‘ اس ہوٹل کے کمرے میں صوفے پر براجمان وہ جو ہدایات دے رہے تھے، اینکر من و عن ان پر عمل کرکے وہی سوالات دہرا رہا تھا۔ابھی حال ہی میں نو تشکیل شدہ 26 اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے جب 14 ٹی وی نیوز اینکرز کو بلیک لسٹ کرنے کا اعلان کرکے تمام لیڈران کو ہدایت دی کہ وہ ان کے شوز میں حصہ نہ لیں، تو مجھے یاد آیا ان میں وہ اینکرز بھی شامل ہیں، جن کے شو کی لگام وزیر موصوف کے ہاتھوں میں ہوتی تھی۔ 2014کے بعد خاص طور پر ٹی وی چینلوں نے مفاد عامہ کے مسائل کا بلیک آوٹ کرکے ، حکومتی ترجمانوں کے بطور کام کرنا شروع کردیا۔ حکومت سے سوالات کرنے کے بجائے آئے د ن اپوزیشن کو ہی سوالات کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ کانگریس لیڈر پون کھیرا کا کہنا ہے کہ اتحاد کا یہ قدم''پابندی یا بائیکاٹ'' نہیں بلکہ ''عدم تعاون تحریک'' ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد نفرت پھیلانے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔’’انہیں نفرت پھیلانے کی آزادی ہے، لیکن ہمیں اس جرم میں شریک نہ ہونے کی بھی آزادی ہے۔ ‘‘ سماج وادی پارٹی کے ترجمان عباس حیدر نے کہا، ’’یہ اینکر تعصب سے بھرے ہوئے ہیں۔ جب وہ آپ کو بولنے دیتے ہیں تو وہ جیسے آپ کا مقابلہ کرتے ہیں اس سے پہلے کہ آپ جملہ ختم کر سکیں، اور پھر آپ کو پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ ان 14اینکروں میں صرف ری پبلک ٹی وی کے ارناب گوسوامی واحد ایسے اینکر ہیں، جو ایڈیٹر کے ساتھ اس چینل کے مالک بھی ہیں۔ بقیہ اینکرز تو چینلوں کے ملاز م ہیں اور جو طوفان بدتمیزی وہ آئے دن پرائم ٹائم پر مچا دیتے ہیں اس میں چینل کے پروڈیوسر، ایڈیٹر اور مالکان بھی شامل ہیں۔اگر کانگریس پارٹی کل انتخابات میں کامیاب ہوکر پاور میں آتی ہے، تو مجھے یقین ہے کہ ان اینکرز کی زبان اور رویہ ہی بدل جائیگا۔ ٹی وی چینلوں کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرنا کانگریس کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا نومبر 2013کو تب کی اپوزیشن نے وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حکومت کے خلاف بدعنوانی کے کئی معاملات کی وجہ سے مورچہ کھولاہوا تھا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس ہنگاموں کی نذر ہو رہا تھا۔ پارلیمنٹ کے کوریڈور میں اس وقت کے پارلیمانی امور کے وزیر راجیو شکلا رپورٹروں کو بتا رہے تھے کہ آج انہوں نے کچھ ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ اپوزیشن کو نانی یاد آجائیگی اور اگلے کئی روز تک کسی بھی چینل یا اخبار میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔ سبھی رپورٹر قیاس آرائیاں کررہے تھے کہ ایسا کیا کچھ ہونے جا رہا ہے؟۔ شکلا نے کہا تھا کہ یہ اعلان شام پانچ بجے آنے والاہے۔ ہم نے اپنے دفاتر میں نیوز رومز کو الرٹ کر دیا تھا۔ شام پانچ بجے ممبئی سے خبر آئی کہ بھارت کے کرکٹ اسٹار سچن تندولکر کرکٹ کو الوداع کر رہے ہیں۔ یہ واقعی ایک ایسا ماسٹر اسٹروک تھا کہ اگلے چند روز تک میڈیا کیا عوام، کسی کو تند ولکر کے کرکٹ ریکارڈزکے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچنے کی مہلت ہی نہیں تھی۔ 2014 کے بعد ایک دو کو چھوڑ کر سبھی میڈیا ادارے حکومتی ایجنڈا کو فروغ دینے میں فخر محسوس کرنے لگے۔چونکہ اس حکومت کا ایجنڈہ اقلیتوں کو ہراساں کرنااور ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینا ہے، اسلئے وہ بھی اس میں بھر پورہاتھ بٹاتے ہیں۔ مگر اے بی پی اور آج تک، انڈیا ٹوڈے نے چالاکی سے ایک دو ایسے اینکر بھی رکھے ہیں ، جن کو لبر ل کہا جا سکتا ہے اور وہ اپوزیشن کو کچھ جگہ دیتے ہیں، تاکہ ناظرین کے سبھی طبقے ان کے ٹی وی کو دیکھ کر ان کو ریٹنگ کی دوڑ میں آگے رکھیں۔ 2019سے قبل جب میں ڈی این اے اخبار سے منسلک تھا ، تو دہلی میں ہمارا دفتر جس بلڈنگ میں تھا وہ زی ٹی وی کے وسیع و عریض کمپلکس میں تھی۔ اسلئے اینکرز سے کینٹین یا صحن میں ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ ایک بار زی ٹی وی کے اینکر سدھیر چودھری شکوہ کررہے تھے کہ ان کے ٹی وی کی ریٹنگ بس تیسرے یا چوتھے نمبر تک ہی محدود رہتی ہے، جبکہ ان کے گروپ کے پاس اپنی سیٹلائٹ اور کیبل ڈسٹریبیوشن سروس بھی موجود تھی اور دیگر چینل ڈسٹریبیوشن کیلئے ان پر ہی انحصار کرتے تھے۔ اگر راج دیپ ڈیسائی یا راہول کنول لبرل طبقے کو بھاتا ہے، تو گورو ساونت دائیں بازو کے شدت پسند، جنگ بازوں کو لبھاتا ہے۔ اس طرح دونوں طبقے اس چینل کو دیکھ کر اس کی ریٹنگ بڑھاتے ہیں جبکہ آپ کا ٹی وی تو ایک ہی طبقہ کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ اینکرز کے بائیکاٹ کے بعد اپوزیشن جماعت کے اتحاد کے چند لیڈران نے چینل مالکان پر شکنجہ کسنے کی مانگ کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی 11صوبوں میں حکومتیں ہیں۔ اگر وہ واقعی نفرت پھیلانے والی چینلوں کا اقتصادی بائیکاٹ کرتی ہیں اور انکو اشتہارات دینے سے منع کرتی ہیں، تو ان مالکان کیلئے چینلوں کو چلانا مشکل ہو جائیگا۔ بھارت میں ٹی وی چینلوں کے بزنس پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے، تو یہ ظاہر ہو گا کہ تامل ناڈو،راجستھان، چھتیس گڑھ ، اتر پردیش اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں چینلوں کیلئے کمائی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ان میں چار صوبائی حکومتیں اپوزیشن کے پاس ہیں۔ مگر اس کے امکانات کم ہی ہیں۔ انڈیا ٹوڈے کے مالکان ارون پوری اور ان کی صاحبزادیاںکوئل اور کالی پوری ، تقریباً روز ہی کانگریس کی لیڈر پرینکا گاندھی کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں۔ پچھلے سال اڈانی بزنس گروپ کے ذریعے نسبتاً لبرل چینل این ڈی ٹی وی کو خریدنے سے قبل پچھلے نو سالوں سے بی جے پی نے اس چینل کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ وہ اس چینل پر اپنا نمائندہ نہیں بھیجتے تھے۔ ایک بار جب بی جے پی کے لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی سے اس بارے میں استفسار کیا گیا، تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیا کہ ان کا ووٹر این ڈی ٹی وی نہیں دیکھتا ہے۔ نیوز لانڈری سروے سے پتہ چلتا ہے کہ جن اینکرز کا بائیکاٹ کیا گیا ہے ،انہوں نے زیادہ تر وقت ہندو مسلم مباحثوں پر صرف کیا۔ مسلمانوں ، دلتوں کو نشانہ بنایا۔ان کے پروگراموں میں قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی جیسے مسائل پر کوئی وقت نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، امیش دیوگن، جن کا اپوزیشن اتحاد نے بائیکاٹ کیا ہے، نے معاشی صورت حال، بے روزگاری اور مہنگائی پر کبھی کوئی پروگرام نہیں کیا ۔ بھارتی میڈیا واقعی اس وقت ایک بحران سے گزر رہا ہے ۔جب ہم نے صحافت کا آغاز کیا تھا تو ہمارے ہیروز ارون شوری اور کشمیر کی سطح پر وید بھسین اور ظفر معراج جیسے صحافی ہوتے تھے، جو حکومت کا ناطقہ بند کرتے تھے۔ مگر 90 کی دہائی کے اواخر میں ہی اس روش سے ہٹ کر صحافت کے طالب علم پربھو چاولہ کو آئیڈیل ماننے لگے اور صرف اسلئے کہ وہ تب کے طاقتور ترین سیاستدان لال کشن ایڈوانی کے ساتھ روز دیکھے جاتے تھے۔ یہ روش اب ایک انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ ٹی وی کے ڈیبیٹ شوز کو فی الوقت بی جے پی کی سیاست کو وسعت دینے کے لیے بطور ایک پلیٹ فارم کے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسی صحافت ، جو پوری طرح سے فرقہ واریت کا شکار ہو چکی ہے ،کے خلاف موقف اختیار کرنے کی اشد ضرورت تھی۔