شاہ رخ جتوئی سمیت شاہ زیب قتل کیس کے دیگر ملزمان کو بری کر دیاگیا ہے۔ اس پوری مشق سے چند اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے سوال کا تعلق ملزمان کے وکیل کے فہم مذہب سے ہے۔ ملزمان کے بری ہونے کے بعد ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ صاحب نے کہا کہ ’’ اسلام بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ معاملات کوالجھانے کی بجائے خوشگوار انداز میں صلح کر لی جائے‘‘۔ ایک طالب علم کے طور پر میں جاننا چاہتا ہوں کہ اسلام نے ایسا کب اور کہاں کہا ہے؟ قتل کے مقدمات میں اسلام نے اگر کہیں ایسی کوئی ہدایت دی ہے جو لطیف کھوسہ صاحب کے علم میں ہے لیکن میرے جیسے طالب علم اس سے لاعلم ہیں تو ہمیں اپنی جہالت اور لا علمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسرے سوال کا تعلق ابلاغی مشقتیوں کے فہم دین سے ہے۔ قریب قریب ہر سیاسی جماعت نے قلمی قلی رکھے ہوئے ہیںاور ان کا بنیادی کام ہی اپنی گروہی فکر اور عصبیت کے لیے دلائل اکٹھے کرنا ہے۔ اس میں مذہبی اور سیکولر کی کوئی تقسیم نہیں۔ دونوں ایک جیسے متعصب اور تنگ نظر ہیں۔ ایسے ہی ایک مشقتی نے سارا ملبہ دیت کے قانون پر ڈال دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں خرابی کیا واقعی دیت کے قانون میں ہیں یا اس کے غلط استعمال میں ہے؟اگر مقتول کے ورثاء خوف کا شکار ہوں ، اگر بیٹا قتل کروانے کے بعد انہیں بیٹیوں کی حفاظت کے بھی خطرات لاحق ہو چکے ہوں ، اگر انصاف کی فراہمی ایک صبر آزما مشقت بن جائے ، اگر حکومت مقتول کی بجائے قاتل کی نازبرداری کرنا شروع کر دے ، اگر چیف جسٹس کے چھاپے کے دوران پکڑا جانے والا مواد بعد میں لیبارٹری ٹیسٹ میں کچھ اور بنا دیا جائے اور ایسے ناساز گار ماحول میں مقتول کے ورثاء کے پاس ’ دیت بالجبر‘ کے سوا اور کوئی راستہ ہی باقی نہ بچے تو اس میں دیت کے قانون کا کیا قصور؟ تیسرے سوال کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے سماج کے شعوراجتماعی کی مسلسل توہین سے ہے۔ دیت کے معاملے سے ہٹ کر اس مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بھی تھیں۔ یعنی اسے درست طور پر فساد فی الارض کا مقدمہ قرار دیا گیا تھا۔ اب پیپلز پارٹی کے سابق گورنر لطیف کھوسہ کے خیال میں یہ تو عام سا معاملہ تھا اور بس اتنا ہوا کہ بچے لڑ پڑے ا ور ایک مارا گیا( بھٹو زندہ ہے تو اسے بھی اس تجاہل عارفانہ کی داد دینی چاہیے) اور پیپلز پارٹی ہی کی سندھ حکومت کے سرکاری وکیل نے بھی دہشتگردی کی دفعات کے خاتمے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا مبلغ سماجی شعور کیا ہے؟ قانونی شعور کا سوال یہاں ویسے ہی غیر اہم ہے لیکن ایک سیاسی جماعت سماج کے شعور اجتماعی سے یوں بے نیاز کیسے ہو سکتی ہے؟ ایسے ہی رویے ہوتے ہیں کہ سماج پھر ایسے سیاسی گروہوں کو اگل دیتا ہے اور ان کی مقبولیت سکڑتی چلی جاتی ہے۔تب وہ دوسروں کو ’ سلیکٹڈ‘ کہہ کر دل کا بوجھ ہلکا کرتے پھرتے ہیں۔ چوتھے سوال کا تعلق اس قانونی پروسیجر سے جو دیت کی شرائط اور اصول طے کرتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 307 کے مطابق مقتول کے ورثاء اگر قصاص نہ لینا چاہیں اور دیت پر معاملہ کرلیں تو اس دیت کے قبول کرنے کی کچھ شرائط ہیں۔ لازم ہے کہ مقتول کے ورثاء کا یہ فیصلہ ان کی اپنی مرضی سے ہوور ان پر کوئی جبر ، کوئی خوف، کوئی ڈر نہ ہو۔یہی نہیں بلکہ قانون کی اسی دفعہ میں لکھا ہے کہ عدالت کی تسلی اور اطمینان بھی ضروری ہے کہ ورثاء کسی ڈر یا خوف سے دیت قبول نہیںکر رہے بلکہ انہوں نے یہ فیصلہ بغیر کسی دبائو یا مجبوری کے خود کیا ہے اور اپنی مرضی سے کیا ہے۔ سوال یہ ہے کیا جتوئی کیس میں یہ سارے عوامل موجود ہیں ؟یہ دیت ہے یا ’ دیت بالجبر‘؟ اسلامی قانون میں دیت کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے ساتھ مقتول کے ورثاء کے لیے یہ ضمانت بھی موجود ہے کہ بصورت دیگر ریاست قصاص نافذ کرے گی اور اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں گی کہ مقتول کتنا طاقت ور ہے اور وہ حکومتی حلقوں میں کتنا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اسلامی قانون میں ریاست پابند ہے کہ وہ مقتول کے ورثاء کو اس بات کی بھی ضمانت دے کہ قصاص نافذکرنے کی صورت میں مقتول کے ورثاء کے خلاف کسی کو کوئی انتقامی کارروائی کرنے کی جرأت نہیں ہو گی۔اسلامی قانون ریاست کو پابند بناتا ہے کہ وہا س بات کو یقینی بنائے کہ بیٹے کا قصاص لینے کے نتیجے میں کوئی آدمی اپنی بیٹیوں کی عزت اور جان بھی خطرے میں نہ ڈال بیٹھے۔ پانچواں سوال گویا یہ ہے کہ اس مقدمے میں کیا ہمارے قانون اور ہماری ریاست نے یہ اہتمام کیا تھا؟ اسلامی قانون میں ولی نہ ہو یا حالات و واقعات ایسے ہوں کہ ولی کمزور اور بے بس ہو جائے تو پھر ریاست ولی کا کردار ادا کرتی ہے۔ چھٹا سوال یہ ہے کہ کیا اس مقدمے میںسندھ حکومت کا کردار اسلامی قانون کے اس پہلو کے مطابق تھا یا اس کے برعکس تھا؟ ریاست کے پاس تعزیزکا حق موجود ہوتا ہے۔ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بھی موجود تھیں۔ ساتواں سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت کے وکیل نے عدالت میں یہ کیسے کہہ دیا کہ اسے کوئی اعتراض نہیں اگر یہ دفعات ختم کر دی جائیں؟ اسی سے متصل ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسلامی قانون میں قاضی ( جج) انتظامیہ اور حکومت کے ایسے موقف کے بعد لازمی طور پر یہ موقف تسلیم کر لیتا ہے یا اس کے برعکس بھی فیصلہ کر سکتا ہے؟ایسے معاملات میں ، ظاہر ہے کہ کامن لاء سے تو عدالتی نظیر نہیںملے گی لیکن اسلامی تاریخ ، فقہ اور قانونی نظائر اس باب میں کیا رہنمائی فرماتے ہیں؟ آٹھویں سوال کاتعلق اس نظام قانون و انصاف کی فعالیت اور لوگوں کے اس پر اعتماد سے متعلق ہے۔ سوال یہ ہے ہم میں سے کتنوں کو یقین ہے ان کے ساتھ کوئی ظلم ہوا تو قانون ان کی دادرسی کو آئے گا؟ کم و بیش ایسا ہی سوال اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جائنٹ سیکرٹری آصف تنبولی صاحب نے جوڈیشل کانفرنس میں جناب جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب کو لکھ بھیجا۔ جناب قاضی فائز عیسی نے سوال پڑھا اور کہا وہ اس کا جواب دینے کی بجائے یہی سوال حاضرین کے سامنے رکھتے ہیں۔ شرکاء میں قانون دانوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی لیکن کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو کہتا کہ ہاں مجھے اس نظام قانون پر اعتماد ہے۔سوال یہ ہے یہ محض ایک واقعہ تھا جسے بھلا دیا جائے یا یہ ایک اہم ترین سانحہ تھا اور لازم تھا کہ ہنگامی بنیاد پر اس عمومی عدم اعتماد کو موضوع بنا کر نظام قانون میں معنوی تبدیلیاں لانے کا سوچا جاتا؟ کیا پارلیمان میں کسی نے بھی اتنے بڑے واقعے کو موضوع بحث بنانے کی ضرورت محسوس کی؟ کوئی ہے جو جواب دے، جورہنمائی فرمائے؟