ایک ویڈیو 4جولائی 2023ء کو وائرل ہوئی۔چند گھنٹوں کے اندر دنیا بھر سے افسوس اور مذمت کے تبصرے آنے لگے۔ اعلیٰ ذات ہونے کا دعویدار ایک ہندو سڑک کنارے بوسیدہ لباس میں بیٹھے کمتر ذات کے ہندو لڑکے پر پیشاب کر رہا ہے۔واقعہ مدھیہ پردیش کا ہے۔بھارت میں اعلیٰ نسل‘ خاندان‘ ذات اور طبقہ کہلانے والے افراد کمتروں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ شرمناک سلوک کر سکتے ہیں۔لڑکا اپنے سر اور چہرے پر پڑنے والے پیشاب کے خلاف مزاحمت نہیں کر رہا تھا۔شائد وہ واقف تھا کہ مزاحمت ظالم کو مزید ستم پر اکسائے گی ۔وہ بے بسی سے اپنی تذلیل ہوتے دیکھتا رہا۔ بھارت میںکمتروں کی عورتیں‘ املاک‘ مویشی لوٹا جا سکتا ہے۔ پیشاب کرنے والے شخص کی شناخت ہوئی تو معلوم ہوا بی جے پی کا مقامی سطح کا لیڈر ہے۔ بی جے پی ہندو توا کی بحالی کے لئے کام کر رہی ہے۔اونچی ذات کے ہندو بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیسی اتحادی ہیں۔یہ استحصالی اور غیر انسانی ذہنیت نئے بھارت کی سماجی تعمیر کا دعویٰ کر رہی ہے۔ پیشاب کرنے والے کی شناخت پرویش کے نام سے ہوئی۔ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد پارٹی نے پرویش سے لاتعلقی کا اعلان کیا لیکن پارٹی کے مرکزی رہنما کیدار ناتھ شکلا کے ساتھ اہم اجلاسوں میں پرویش کی شرکت کی نئی تصاویر بی جے پی کی دوغلی پالیسی کو بے نقاب کر رہی ہیں۔کیدار ناتھ لوک سبھا کے رکن ہیں۔بھارت میں ذات پات کے نظام نے سماج میں ظلم کو جائز قرار دیا ہے۔ بی جے پی کے کچھ حلقے اس ویڈیو کو جعلی قرار دے رہے ہیں لیکن آئی ٹی ماہرین اور علاقے کے لوگ اس کو اصلی مانتے ہیں۔یہ ویڈیو چند دنوں میں کئی ملین افراد دیکھ چکے ہیں۔اس ویڈیو کو عالمی میڈیا نے بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی سے وابستہ گروہوں اور افراد کی نمائندہ سوچ کے طور پر دیکھا ہے۔ قدیم ہندوستان کی خوشحالی‘ ترقی ‘ دانش مندی اور بہادری کے جتنے قصے پڑھنے کو ملتے ہیں وہ بالائی ذات کے لوگوں کے ہیں۔ عام لوگ تاریخ میں صرف رعایا کا نام پا سکے۔۔۔۔ وہ رعایا جس کا کوئی چہرہ‘ کہانی ‘ گھریلو زندگی‘ رومانس‘ بہادری ثقافت نہیں ہوتی۔ میں شائد پرانے لوک گیتوں اور کہانیوں کی طرف اسی لئے راغب رہتا ہوں کہ ان میں ماضی کی رعایا کا عکس نظر آتا ہے۔ بھارت میں مختلف برادریوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھگڑوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آزادی سے پہلے ملک میںبدترین فرقہ وارانہ تشدد دیکھا گیا ۔ پہلا بڑا فرقہ وارانہ فساد اگست 1893 میں ہوا۔ممبئی میں ہونے والیان فسادات میں تقریباً ایک سو افراد ہلاک اور 800 زخمی ہوئے تھے۔ 1921 اور 1940 کے درمیان کا عرصہ خاص طور پر مشکل رہا۔بھارت نے تقسیم کے بعد 1948 میں اپنے بدترین فرقہ وارانہ فسادات کا مشاہدہ کیا۔ تقسیم کے بعد پہلی دہائی میں فرقہ وارانہ تشدد میں کافی کمی آئی تھی۔ لیکن 1960 کے دوران ووٹ بینک کی سیاست نے اس نسبتا پرسکون دورکو پرتشدد عہد میں بدل دیا۔ آزاد بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد 1947 کے بعد ایک مستقل رجحان بن گیا ہے۔1960 جبل پور فسادات ہوئے، 1961 کے بعد سے فسادات کاگراف بلند رہا۔ 1964 میں 1070 واقعات ہوئے ۔ 1960سے 1980 کے درمیان اور پھر راجیو گاندھی کے دور میں، مرکزی حکومت نے فرقہ وارانہ طور پر حساس لوگوں کی شناخت کا آغاز کیا تھا۔ ملک بھر کے اضلاع اور زیادہ تر ان اضلاع کی نشاندہی کی گئی جن میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ملک میں فرقہ وارانہ طور پر حساس مقامات میں ممبئی، حیدرآباد، احمد آباد، لکھنؤ،میرٹھ، دہلی، کولکتہ وغیرہ شامل ہیں۔ بھارت میں شناخت، سیاست اور مذہب کا آپس میں جڑنا تشدد کے لیے ایک زرخیز میدان بناتا ہے۔ بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کی ایک اہم وجہ انتہا پسند قوتوں کاسیاسی ایجنڈا ہے۔ بھارت میں سیاسی جماعتیں اکثر مذہب اور علاقائی شناخت کو حمایت حاصل کرنے اور انتخابات جیتنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل بھارت میں رام نومی کا تہوار، جو اس سال مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے ساتھ منایا گیا، اس وقت تشدد کی لپیٹ میں آگیا جب جلوسوں میں شامل ہندو غنڈے مسلمانوں کے محلوں سے ہتھیار لے کر اور مسلم مخالف نعرے لگاتے ہوئے گزرے۔30 اور 31 مارچ کو کئی ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی اطلاع ملی۔ بہار میں مبینہ طور پر ہجوم نے ایک مدرسے میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔ میڈیا نے اطلاع دی کہ جھڑپوں میں ایک ہندو نوجوان مارا گیا۔ ملک بھر میں 100 سے زائد افراد کو گرفتار اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔بھارت کے ہندو تہواروں کو حکمران ہندو اکثریتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ووٹروں کی ریلی کے لیے استعمال کر تی رہی ہے، جس کے نتیجے میں تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ہجوم سیاسی سرپرستی کے احساس سے حوصلہ افزائی پاتے ہیں۔ حزب اختلاف کی حکمرانی والی ریاست مغربی بنگال میں تشدد کے بعد حکام نے بی جے پی کے ایک درجن سے زائد ارکان اور حامیوں کو گرفتار کیا، پارٹی نے پولیس پر تعصب اور "امتیازی کارروائی" کا الزام لگایا۔ بھارت بین الاقوامی سطح پر اپنی حیثیت کو بلند کرنے کے لیے اپنی جمہوری اقدار کو فروغ دینا چاہتا ہے، وزیر اعظم نریندر مودی نے گروپ 20 کی صدارت کے دوران اپنی حکومت کو دنیا میں ابھارنے کا منصوبہ ترتیب دیا ہے لیکن نچلی ذات کے لوگوں، اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر عالمی سول سوسائٹی کا دبائو مودی کی آمرانہ حکمرانی کو اجاگر کر رہا ہے۔بھارت دنیا کے لیڈر ہونے کا خواب دیکھ رہا ہے لیکن اقلیتوں، پسے اور کمزور طبقات کی زندگی انتہا پسندی اور عدم برداشت کے کانٹوں سے بھر کر اس خواب کی تعبیر نہیں پائی جا سکتی۔