ہمارے حکمرانوں کو حلف اٹھاتے ہی امریکہ جانے کا شوق ہوتا ہے تو ہمارے نگران وزیراعظم کیسے پیچھے رہتے انہوں نے حلف اٹھایا اور امریکہ جا پہنچے ۔وہاں وہ بڑے بڑے لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں آئی ایم ایف کے دربار میں بھی حاضری دی ہے۔ اور وہاں کی مینجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات ہوئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو ہمارے ملک کے وزیراعظم کو یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ آپ کے معاشی حالات اگر اچھے نہیں ہیں تو اپ امیروں سے ٹیکس لیں اور غریبوں کو آسانی دیں۔یہ بات 76برس سے حکمرانوں کو سمجھ نہیں آئی اور یہ بات بھی آئی ایم ایف کو بتانی پڑ رہی ہے۔بات یہ ہے کہ نگران وزیراعظم تو محدود وقت کے لیے آئے ہیں، اس لیے اگر میں اس وقت ایک بات کہہ رہی ہوں کہ ہمارے حکمران تو اس کا ہرگز مطلب ان کی ذات نہیں ہے۔ ان کا اس وقت کے پاکستانی حالات کے خرابے میں اتنا ہی حصہ ہے کہ وہ بھی برس ہا برس سے مقتدر ایوانوں کا حصہ رہے ہیں ایوانوں نے اپنے ممبران کے لیے جو سرکاری مراعات کی بل پاس کروائے ان تمام مراعات سے ہمارے وزیراعظم بھی لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جار۔جیوا نے پاکستانی وزیراعظم کو خوش آمدید کہتے ہوئے جو ٹویٹ کی اس میں لکھا ہے کہ پاکستان کی معیشت اور بدحالی کا حل سیاسی اور معاشی استحکام ہے۔مزید یہ کہ ریوینیو اکٹھا کیا جائے اس سے پاکستان کے پسے ہوئے طبقے کو سپورٹ دی جائے۔انگریزی میں جو اصطلاح انہوں نے استعمال کی وہ protection vulnerable of ہے۔آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے اپنی ٹویٹ میں ایک لفظ استعمال کیا کہ پاکستان کو انکلوسو گروتھ پر دھیان دینا چاہیے۔انکلوسو گروتھ معاشیات کے مضمون کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی معاشی ترقی جس میں معاشرے کے تمام طبقے حصہ دار ہوں۔یا ایسی معاشی ترقی جس میں ترقی کرنے کے مواقع شفاف طریقے سے تمام طبقات کو میسر ہوں۔معاشی ترقی ہی سماج میں موجود خوفناک عدم مساوات کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ انکلوسو گروتھ کے ساتھ ہی امیر ترین طبقے کی دن دگنی رات چگنی اور غریب طبقے کی آمدن کے درمیان حائل ہونے والی خلیج کو کم کیا جا سکتا ہے۔یا کم از کم ایسے معاشی حالات غریب طبقے کے لیے بھی پیدا کیا جا سکتے ہیں جس میں وہ سہولت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔انکلوسو گروتھ ہی غربت کو بتدریج کم کرتی ہے۔ انکلوسو گروتھ کا مطلب ہے کہ معاشرے پسے ہوئے طبقے کے انسانی حقوق کااحترام کیا جائے کہ ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس تمام فلسفے کے بالکل برعکس ہے۔غریب آدمی عدالتوں تھانوں سرکاری دفتروں میں بھی ذلیل وخوار ہوتا ہے اور ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں بھی اس کی زندگی بوجھ بنتی جاتی ہے۔غربت بھوک سے غریب خودکشیاں کرتے نظر آتے ہیں ،جبکہ طبقہ اشرافیہ ہر حالات میں محفوظ و مسرور ہے، مسائل سے ابلتے اسی پاکستان کے اندر وہ ایک الگ منطقے پر زندگی گزارتا ہے۔ اور اس نظام کا ایک ایک پرزہ ان کی عیاشی اور آسودگی کے لیے مصروف عمل ہے۔ایک ہی پاکستان میں پاکستانی عوام اذیت اور خواری کے صحراؤں میں زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹتے ہیں جبکہ ان پر حکمرانی کرنے والا طبقہ انکی اذیت سے بے خبر چین کی بانسری بجاتا ہے۔ معاشیات میں انکلوسو گروتھ کا تصور ایک پورا فلسفہ معاشیات ہے۔پاکستان کے حالات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کا جو بھی فلسفہ معاشیات ہو اس میں انکلوسو گروتھ کا داخلہ منع ہے۔یہاں ہر پالیسی ہر آئینی ترمیم کی بنیاد اس نا انصافی پر رکھی جاتی ہے کہ تمام تر وسائل پر اہل اختیار اشرافیہ کا حق ہے۔ مزید یہ کہ دو وقت کی روٹی کے لیے زندگی کی تگ و دو میں صبح سے شام کرتے ہوئے عام آدمی کا لہو نچوڑ کر امیر کا پیٹ بھرنا ہر آنے والی حکومت کی ترجیح ہے۔خوفناک حد تک بڑھے ہوئے بجلی کے بل ا ور روز افزوں بڑھتی مہنگائی لوگوں کی خوشیوں کو عفریت کی طرح نگل رہی ہے ۔سوار غریب شخص ہر ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے اور اس ٹیکس پر پاکستان کا امیر طبقہ عیاشی کرتا ہے ۔ غریب کو اس ٹیکس کے بدلے میں ایسی زندگی گزارنی پڑتی ہے جس کے بارے میں منیر نیازی نے دعا مانگی کہ چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر ایک ایسی زندگی جو اس قدر مشکل نہ ہو۔اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے جاگیردار، وڈیرے،صنعت کار اور ججز، جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے رشتہ دار ایک ایسا نظام بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں جس میں وہ اپنی دولت کے انبار پر کروڑوں ٹیکس بچا سکتے ہیں۔ اگر پاکستان کا امیر طبقہ دیانت داری اپنے اربوں کے اثاثوں پر واجب الادا ٹیکس ادا کر دے تو یقین جانیں تو عام آدمی پر 17 فیصد جی ایس ٹی لگانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔واقعہ یہ ہے بڑے بڑے امیر ترین سیاستدان ٹیکس کے مد میں کچھ بھی ادا نہیں کرتے۔ یا پھر اتنی کم رقم ٹیکس کی مد ادا کرتے ہیں جو کسی مذاق سے کم نہیں۔آئی ایم ایف کی شرائط یقینا سخت ہیں ۔ٹیکس وصول کرنے کا نیٹ ورک ایسے تمام لوگوں کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ ٹیکس بچانے کے 101 خفیہ طریقے ان کو بتائے جاتے ہیں جس سے وہ ٹیکس بچا لیتے ہیں۔اربوں کے اثاثوں کے مالک سیا ستدان چند لاکھ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔20برس پہلے کی خریدی ہوئی چند لاکھ کی جائیداد کو وہ 20 برس بعد بھی چند لاکھ کا ڈیکلیئر کرتے ہیں جبکہ اس کی قیمت کروڑوں تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔یہی سسٹم ٹیکس چوری کی بدیانتی میں ان کی سہولت کاری کرتا ہے۔سو ٹیکس کی چوری کر کے وہ غریب کی قسمت بدلنے کے دعوے کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭