مری خوشی میں بھی میرا ملال بولتا ہے جواب بن کے کبھی تو سوال بولتا ہے کہا تھا میں نے ستارے ہیں میرے گردش میں کہ میرے ہاتھ میں زہرہ جمال بولتا ہے کیا کریں کہ ہم آئینہ مثال ہیں یا کم از کم ایسے ہی سمجھتے ہیں۔ کوئی بتائے اسے کس کے روبرو لائیں۔یہ آئینہ بھی تو الٹی مثال بولتا ہے سب آئینہ دکھاتے ہیں دیکھتا کوئی نہیں جبکہ ہم سب آئینہ خانے میں ہیں۔ ہمیں تعصب نے خانوں میں بانٹ دیا ہے ہمارا مزاج اور ہماری انا سب پر بھاری ہے۔ کوئی بھی نہ دلیل سے بات کرتا ہے اور نہ دلیل سنتا ہے اور سمجھتا ہے کہ طاقت اور دھونس سے بڑی دلیل کوئی نہیں۔ جہاں بردباری اور وضعداری کا گزر نہیں تاہم آپس میں وہ آنکھیں بند رکھتے اور دل کھلے: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تم کو روبرو کر کے ہر طرف ایک آویزش نظر آتی ہے۔اب ان کی لڑائی گندم تک آ گئی ہے۔وہی گندم جس سے خمار گندم کی ترکیب بنی ہے اور وہی گندم کا دانا جسے کھانے کی پاداش میں حضرت آدم اور اماں حوا کو جنت سے نکالا گیا اس گندم کی محبت حضرت انسان کے دل سے نہیں نکلی۔ اس گندم کو پنجاب ہی سے نہیں اس دھرتی سے بہت نسبت ہے اسی مناسبت سے یہاں گندمی رنگ عام ہوا ۔کہنا میں چاہتا ہوں کہ وہی کھانے پینے کی لڑائیاں گندم تو بہانہ ہے۔وگرنہ کسی کو نہیں معلوم پیچھے دو ادوارمیں کیسے پہلے اپنی اعلیٰ گندم باہر بھیجی گئی اور سبسڈی دی گئی گھر گھٹیا گندم دوبارہ واپس درآمد کی گئی۔ کسی کو شرم محسوس نہیں ہوئی اب پھر باتیں ہونے لگی ہیں کہ شیر آٹا کھاتا ہے آٹا ریکارڈ مہنگا ہوا۔ حپاتی اور نان بھی۔ اصل میں کسی پر کسی کی کوئی گرفت نہیں۔ساری توانائیاں مرکز میں حکومت کو بچانے کے لئے صرف ہو رہی ہیں اور مخالفین کی ساری توجہ مرکز کو گرانے کی طرف ہے۔ عوام تماشہ دیکھتے خود تماشہ بن گئے ہیں: تم اٹھائو نہ ہمیں رہنے دو اس تماشے میں تماشائی بھی لوگوں کی توجہ لانگ مارچ کی طرف ہے اور اسے روکنے کی استدعا سپریم کورٹ نے مسترد کر دی ہے تو اب اس لانگ مارچ کو کون روک سکتا ہے ہاں اگر غیر معمولی صورتحال پیدا ہوئی تو عدالتیں چھٹی والے دن بھی کھلیں گی۔اب اتنی جرات ہم میں تو نہیں کہ اس لاجواب فیصلے پر اپنی رائے دیں۔ ’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘: پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فراز دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں مگر ایک اور شعر ذہن میں آ گیا تکتا ہے ہر شخص حسد سے سعدؔ ایسا بدنام ہوا ہے۔ کمال تو یہی ہے کہ اب ہر جگہ یہ رومانس آ گیا ہے کہ ہم منصب کی نزاکت کو دیکھے بغیر بدنامی سے لذت کشید کرتے ہیں۔ ہمیں تو عمران خاں کے بیان سے کہ گورنر سندھ اور مولا جٹ ہیں کوئی فرق نہیں اپنے دوست ناصر ادیب یاد آئے کہ وہ ماشاء اللہ نئی مولا جٹ لکھ چکے ہیں وہ ہماری باوقار سیاستدان آمنہ الفت کے میاں ہیں مولا جٹ ان کی پہچان بن چکی۔ اس میں مولا جٹ کا گنڈاسہ بھی بہت اہم ہے نوری نت کا کردار بھی امر ہو چکا مگر اس وقت مولا جٹ کون بنا ہوا ہے بتانے کی ضرورت نہیں سردست مجھے مولا جٹ کے ایک ڈائیلاگ کا تذکرہ کرنا ہے کہ ناصر ادیب صاحب نے بتایا کہ جب میں نے یہ ڈائیلاگ مصطفی قریشی سے بلوایا کہ جیہڑے گج دے نیں اوہ وسدے نئیں۔ تو اس محاورے کو جواب میں توڑنا آسان نہیں تھا۔ تین گھنٹے لگے کوئی یہ ڈائیلاگ بولتا جاتا اور آخر جواب ذھن میں آ گیا جے وس پیا تے نک نک ڈوب جاویں گا اب لوگ کسی کے برسنے کے انتظار میں ہیں اور دوسری طرف مسئلہ ہی ناک کا ہے کہ اسے بچانا ہے۔ ویسے سچ مچ ایک جنگ کا سماں لگتا ہے جنگ ہی مغلیہ دور کی کہ بادشاہ اسلام آباد میں اپنے ساتھیوں سمیت محصور ہے جسے توپچیوں نے گھیرا ہوا ہے پہلے تو قلعے کے اردگرد فصلیں ہوتی تھیں آج کل کنٹینرز ہیں بلکہ بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے یہ بھی شکر ہے یہ بھی شکر ہے کہ ربڑ کی گولیاں چلیں گی کہ وقتی طور پر کوئی فعال نہیں رہے گا وگرنہ تو حملہ آور کو لاشیں مل جائیں اور مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ فوج کو حرکت میں آنا پڑے اور اس وقت حالات اس کی اجازت نہیں دیتے لگتا نہیں ہے کہ فوج جو اپنا امیج اس وقت تک بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اسے خراب کر لے۔ اب ایک دو چھوٹی چھوٹی باتیں ایک تو اعتزاز احسن صاحب کے حوالے سے کہ وہ موجودہ فیصلوں پر لاٹھی چارج کرتے نظر آئے پھر ان کے بارے میں افواہ کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں انہوں نے دانشمندی سے اس بات کو افواہ ہی قرار دیا کہ انہیں تو پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی چھوڑنے کے عوض وزارت عظمیٰ کی آفر کی تھی واقعتاً وہ مزاجاً بھی پیپلز پارٹی ہی میں جچتے ہیں انہوں نے اچھا کیا وگرنہ ان کا حشر بھی جاوید ہاشمی سے زیادہ نہ ہوتا یا پھر چودھری نثار کی طرح مارے جاتے ہمارے ہاں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کوئی کردار پارٹی سے بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ کہیں کا نہیں رہتا جماعت اسلامی سے نکلنے والے اپنا تشخص نہیں بنا سکے کسی حد تک ڈاکٹر اسرار احمد عملیت کی طرف آ کر کامیاب ہوئے مگر آگے نہ بڑھے اب مولانا فضل الرحمن کو چھوڑنے والے بھی دوسروں کے لئے ایندھن ہی بن سکے: وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے مرے بت خانے میں تو کعبہ میںگاڑو برہمن کو ویسے ہمیں تو اعتزاز احسن اور چوہدری نثار اسمبلی میں لڑتے ہوئے اچھے لگے تھے چوہدری کا غصے سے لال پیلا ہونا اور اعتزاز احسن کا شعروں سے مزین خطاب یہ لوگ اچھے تھے اس کے بعد تو سطح قادر پٹیل اور مراد سعید تک آ گئی پورا معاشرہ ہی زوال پذیر ہے گالی گلوچ کا کلچر عام ہے اس لئے کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں: کمزور کی نہیں ہے یہاں کوئی زندگی بیکار کی ہیں چیزیں یہاں علم و آگہی