اگر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے زمانے میں ان کے سیاسی مخالفین کے پاس فون ٹیپ کرنے، خفیہ کیمرے نصب کرنے اور یہاں تک کہ اپنے طور پر جعلی ویڈیو بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی تو شاید قائد اعظم ؒ جیسے بااُصول سیاستدان جو پہلے ہی ہندوستان کی اس وقت کی سیاست سے تنگ آ کر 1930ء میں لندن چلے گئے تھے اور اپنی بہن اور بیٹی کو بھی بلا لیا تھا، وہ شاید اس قدر دلبرداشتہ ہوتے کہ کبھی واپس نہ آتے۔ برطانوی ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ ان ہتھیاروں سے لیس تھی اور نہ ہی اس دور کے صحافی اس قدر گری ہوئی ذہنیت کے مالک تھے کہ کسی کی ذاتی زندگی کو اُچھالتے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اقتدار کی راہداریوں میں وہ لوگ آ بیٹھے ہیں جن کا سرمایہ اور مستقبل کا تمام اثاثہ ملک سے باہر ہے اور جن کا اختیار اندھی، گونگی اور بہری قوتِ نافذہ کی بنیاد پر قائم ہے۔ پاکستان میں کسی موجودہ یا سابق وزیر اعظم پر قاتلانہ حملوں کی چار مثالیں ہیں، دو ناکام اور دو کامیاب۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان پر 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے ایک جلسۂ عام میں قاتلانہ حملہ ہوا اور وہ اللہ کے حضور جا پہنچے۔ آج اکہتر سال گزرنے کے باوجود کسی نے اس سانحہ کا تمسخر نہیں اُڑایا۔ اس دور میں کانگریس کے ساتھ سیاسی وابستگیوں کا ماضی رکھنے والے بے شمار سیاستدان موجود تھے، لیکن کسی ایک نے بھی اس سانحے کو بدترین سیاسی دُشمنی کی نذر نہیں کیا۔ حکومت کا روّیہ بھی تحقیق و تفتیش میں بظاہر مخلصانہ نظر آتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی سازشوں اور علاقائی کرداروں کی وجہ سے قتل کے اصل محرکات اور اصل قاتل تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ دوسرا قاتلانہ حملہ ایک سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی میں کارساز کے مقام پر ہوا جو ناکام رہا۔ تقریباً 180 لوگ مارے گئے اور پانچ سو کے قریب زخمی ہوئے۔ پورے ملک میں سناّٹا طاری ہو گیا۔ ہر کسی کی زبان پر ہمدردی اور زندہ بچ نکلنے پر اللہ کے لئے تشکر کے الفاظ تھے۔ پرویز مشرف برسراقتدار تھا، شیخ رشید جیسے منہ پھٹ اور فقرہ کسنے والے وزراء موجود تھے، لیکن شاید اس وقت تک اخلاقی معیار زندہ تھا کہ کسی ایک نے بھی اس واقعہ کو بے نظیر کا رچایا ہوا ڈرامہ قرار نہیں دیا۔ تیسرا قاتلانہ حملہ بھی بے نظیر بھٹو پر ہی 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں اسی مقام کے قریب ہوا جہاں لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا اور محترمہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں۔ میں اس دور میں اسلام آباد میں جائنٹ سیکرٹری محکمۂ صحت تھا۔ میں نے ہسپتال، اس کے آس پاس اور پوری مرکزی حکومت میں ایک سوگواری اور فکرمندی کی فضا دیکھی۔ پورے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ ایسے ہنگامے کہ جن میں ہونے والا نقصان پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا نقصان تھا۔ اس کی تفصیلات المناک سے زیادہ خوفناک بھی ہیں۔ لیکن اس سانحے کے بعد ایک بھی آواز مضحکہ خیز یا تمسخرانہ نہیں اُٹھی تھی۔ چوتھا اور ناکام قاتلانہ حملہ عمران خان پر 3 نومبر 2022ء کو ہوا۔ جس وقت یہ حملہ ہوا اس لمحے دو درجن سے زیادہ ٹی وی چینلوں کی ڈی ایس این جی وین، لاتعداد صحافی اور بے شمار کیمرہ مین وہاں موجود تھے۔ قاتلانہ حملے کی پوری ویڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دونوں اطراف سے کیا گیا اور تنگ جگہ کا انتخاب کر کے ٹرک پر کھڑے افراد پر ایسے گولیاں برسائی گئیں جیسے فائرنگ اسکواڈ کے سامنے افراد کو کھڑا کر کے گولیوں سے بھونا جاتا ہے۔ لیکن یہ تو کوئی معجزہ ہی تھا کہ عمران خان زخمی ہونے کے باوجود سلامت رہا۔ اس واقعہ کے بعد حکومتی روّیے، اسٹیبلشمنٹ کی ’’خصوصی‘‘ دلچسپی اور میڈیا کی چالبازیوں نے مل کر ایک ایسا ماحول بنایا ہے، جیسے یہ سب اپنی کسی دبی ہوئی خواہش کے پورا نہ ہونے پر غمزدہ ہو گئے ہوں۔ اس المناک سانحہ کو ایک ڈرامہ تک کہا گیا۔ بے بسی کا عالم یہ ہے کہ عمران خان مرضی کی ایف آئی آر درج نہ کرا سکے۔ یہ وہی میڈیا تھا جس نے بے نظیر بھٹو کے مارک سیگل کو لکھے ہوئے اس خط پر مدتوں پروگرام کئے تھے، جس میں اس نے اپنے قتل کی ذمہ داری چوہدری پرویز الٰہی، لیفٹیننٹ جنرل حمید گل اور بریگیڈیئر اعجاز شاہ پر ڈالی تھی۔ یہ الگ حقیقت ہے کہ ان تینوں سے بھی کسی قسم کی کوئی تفتیش نہیں کی گئی تھی، لیکن یہ سب میڈیا پر زیرِ بحث ضرور رہا۔ یوں تو گزشتہ بیس برسوں میں دہشت گردی کی عالمی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے پاکستان میں ریاست کی پرتشدد کارروائیوں کی صلاحیت میں تقریباً ویسا ہی اضافہ ہوا ہے جیسا سرد جنگ کے دوران جنوبی امریکہ کے ممالک کی افواج نے امریکی تربیت کے تحت حاصل کیا تھا۔ امریکہ اپنے پڑوس میں کسی کیمونسٹ ریاست کو نہیں دیکھنا چاہتا تھا اس لئے اس نے جنوبی امریکہ کے ممالک کی افواج کی تربیت کے لئے ایک ’’سکول آف امریکاز‘‘ کھولا تھا۔ اس ’’سکول‘‘ کا قیدیوں پر تشدد کر کے ان کے اذہان کو بدلنے والا مینوئل بہت مشہور ہوا تھا۔ پاکستان میں ’’گیارہ ستمبر‘‘ کے بعد سے ہر وہ شخص ’’لائق تشدد‘‘ تھا جس کی ہمدردی کے جذبات بھی امریکی مخالف قوتوں سے تھے۔ گزشتہ بیس برسوں میں پاکستان میں وہ تمام مناظر عام ہو گئے، جن کی کبھی یہاں صرف خبریں پہنچا کرتی تھیں اور لوگ خوف سے کانپ اُٹھتے تھے۔ لاپتہ افراد تو چلّی، ہنڈراس اور نکاراگوا جیسے ملکوں میں ہوا کرتے تھے، صحافیوں کا قتل بھی انگولا، سسلی، کولمبیا، برازیل اور انڈونیشیا جیسے ممالک کا خاصہ تھا۔ لیکن اب یہ مناظر پاکستان میں بھی عام ہو گئے۔ لاپتہ افراد کی فہرست طویل ہوتی گئی۔ عالمی مجرموں کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کا فیشن جنوبی ویت نام، گریناڈا، کوریا، فلپائن اور دیگر ممالک میں تھا، جہاں امریکہ نے جنگیں لڑی تھیں لیکن جتنے ان ممالک نے لوگ پکڑے ہم نے ان سب کے برابر پکڑ کر گوانتاناموبے روانہ کر دیئے۔ یوں ان بیس سالوں میں جو حوصلہ، صلاحیت اور بے باکی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو حاصل ہوئی ہے اس کا سامنا اگر فاطمہ جناحؒ کو 1962ء میں، اصغر خان، مفتی محمود اور مولانا مودودی جیسے رہنمائوں کو 1977ء میں اور بے نظیر کو 1980ء میں کرنا پڑتا تو وہ کب کا حوصلہ ہار چکے ہوتے۔ پاکستان دن بدن ایسے ممالک میں ڈھلتا گیا جہاں بقول غالب ’’بات پرواں زبان کٹتی ہے‘‘ کے مصداق زبان خاموش کر دی جاتی ہے۔ آج میڈیا کئی سو گنا زیادہ آزاد ہے لیکن صرف وہی سچ بولا جا سکتا ہے جس کی اجازت ہے۔ ورنہ آپ کو سرعام ذلیل و رُسوا کیا جا سکتا ہے، آپ کے بچوں کو خوفزدہ اور آپ کو کئی دنوں کے لئے لاپتہ کر کے آپ کا ’’سافٹ ویئر‘‘ تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اگر آپ بھاگ نکلیں تو آپ بیرون ملک مارے بھی جا سکتے ہیں۔ ایسے حالات کبھی مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، حمید نظامی اور دیگر کو نہیں دیکھنے پڑے ورنہ شاید وہ قلم جیب میں رکھتے اور سکون کی نیند سوئے رہتے۔ ظلم تھا، تشدد تھا، فیض احمد فیض جلاوطن ہو کر بیروت میں اخبار نکالتے تھے۔ خاور نعیم ہاشمی کوڑے کھاتا تھا، صلاح الدین دہشت گرد تنظیم کے ہاتھوں شہید کر دیئے جاتے تھے، لیکن بقول بہادر شاہ ظفر: بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی جیسی اب ہے مری محفل کبھی ایسے تو نہ تھی پاکستان اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے۔ جبروتشدد اپنے عروج پر ہے۔ سچ کی آواز کے مقابلے میں جھوٹ کا پرچم حکومتی سرپرستی میں بلند ہے اور نظامِ عدل پُرسکون نیند سو رہا ہے۔ یہ جنگ کون جیتے گا۔ اس کا فیصلہ زیادہ دُور نہیں ہے۔