چند ہفتے پیشتر ایک قریبی عزیزہ کا بیدیاں روڈ پر واقع پی کے ایل آئی اسپتال میں آپریشن تھا۔کم و بیش ہفتہ بھر ہسپتال میں قیام, آئی سی یو اور آپریشن کے اخراجات کا تخمینہ لاکھوں میں ہوا۔یہ سٹیٹ آف دا آرٹ ہسپتال گردے اور جگر کے مریضوں کے لیے بنایا گیا ہے جگر کی پیوند کاری کا مہنگا اور انتہائی حساس آپریشن یہاں کامیابی سے ہوتا ہے۔ اسپتال کی راہداریوں میں سفید پوش اور غریب لوگ بھی دکھائی دیئے کیونکہ یہاں مستحق مریضوں کا علاج زکوۃٰ کی مد میں مفت کیا جاتا ہے۔شہر سے کافی دور اس ہسپتال کی راہداریاں مریضوں سے بھری ہوئی نظر آئیں۔یہاں مریضوں کو جگر اور گردے کی پیوند کاری کے آپریشن کے لیے سال بھر کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور مریض قطار میں لگے رہتے ہیں۔ آپ کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں وہاں راہداریاں، ایمرجنسی ، آؤٹ ڈور سب مریضوں سے بھرے نظر آئیں گے۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ لوگوں کے بیمار ہونے کی شرح بڑھ رہی ہے تشویش کی بات یہ ہے کہ پہلے دل کی بیماریاں، شوگر، بلڈ پریشر، بڑی عمر کے لوگوں کو ہی لاحق ہوتا تھا لیکن اب نوجوان بھی ان بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیںسوال ہے کہ ہمارے کھانے پینے اور طرزِ زندگی میں ایسا کیا ہے بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔جتنا اہم کام علاج کی بہترین سہولتوں کے ساتھ اچھے اسپتال بنانا ہے اتنا ہی ضروری بلکہ اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ لوگوں کو سکھایا جائے کہ اپنی صحت کی حفاظت کیسے کرنی ہے کون سی غذائیں بیماریوں کا موجب بنتی ہیں؟ کس طرح کا طرز زندگی بالاآخر انسان کو بیمار کر دیتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر ذہنی دباؤ جو آج کے مادی دور میں انسان کی جسمانی اور روحانی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ ہے اس اکٹوپس کے شکنجے میں آنے سے کیسے بچا جائے۔صحت کے شعور کو اجاگر کرنے کی ایسی مہم سرکاری اور غیر سرکاری ہر سطح پر چلنی چاہیے۔ اسے لازمی مضمون قرار دے کر ہر سطح پر تعلیم کے نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ہر تعلیمی سطح پر طالب علموں کو صبح کی سیر یا دن کے کسی بھی وقت 30 سے 35 منٹ کی جسمانی سرگرمی کی اہمیت کے بارے میں سکھایا جائے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ہمارے ہاں دواؤں کی مارکیٹنگ ہوتی ہے لیکن ان دوا ؤں سے بچنے کے لیے صحت مند طرز زندگی کیسے اختیار کیا جائے اسے مشتہر نہیں کیا جاتا کیونکہ اس میں فائدہ انسانوں کو ہے کسی کاروبار کو کوئی فائدہ نہیں اور یہ اس کنزیومر ورلڈ کو قابل قبول نہیں ہے۔فارماسوٹیکل انڈسٹری تو ایک ایسا کاروبار ہے جس میں مریضوں کو مکمل صحت یاب ہونے ہی نہیں دیا جاتا۔ مشاہدہ ہے کہ وہ لوگ جو ان سے بچتے رہتے ہیں اور ہربل ادویات کی طرف جاتے ہیں ان کی بیماریاں بگڑنے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں۔ایک طرف لاکھوں روپے کے علاج سے صحت ملتی ہے تو تو دوسری طرف غریب شہر چند روپوں کی دوائیں پھانک کر اللہ سے شفا طلب کر رہا ہے۔ یہ ایک عجیب نظام ہے۔شفا کے بارے میں واضح حکم موجود ہے کی شفا منجانب اللہ ہے علاج کروانا سنت ہے۔ کچھ لوگ بڑے ہسپتالوں بڑے ڈاکٹروں پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ شہر کے بڑے بڑے ہسپتالوں سے منسلک کئی کہانیاں دل دہلا دینے والی ہیں کہ وہاں کے نامور ڈاکٹروں نے مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔شہر کا ایک مہنگا ترین ہسپتال جس کے نام کے ساتھ ہی ڈاکٹر لگا ہوا ہے وہاں کے ڈاکٹروں کی غفلت کی عجیب و غریب کہانیاں منسوب ہیں۔ ہماری ایک عزیزہ کے بھائی اس ہسپتال میں بیماری کے بعد لائے گئے ڈاکٹروں نے جس طرح سے ان کا علاج کرنا ہے شروع کیا اتفاق سے ان کی ڈاکٹر بیگم کو شک گزرا کہ۔علاج کی تشخیص درست نہیں ہورہی۔ وہ کوئی عام ڈاکٹر نہیں تھیں بلکہ وہ یو این او سے منسلک ہیں اور مختلف ملکوں میں کام کرتی ہیں۔ ان دنوں چھٹی پر پاکستان تھیں اور ہسپتال میں اپنے شوہر کے ساتھ موجود تھیں۔ان کا اعتراض ڈاکٹروں کو سخت ناگوار گزرا مگر،نے اپنی کہی ہوئی بات پر مکمل یقین تھا سو انہوں بھی علاج رکوا کر تشخیص کا عمل دوبارہ سے کروایا تو ان کی بات درست نکلی۔کچھ برس پیشتر میری مددگار لڑکی کی بڑی بہن سخت بیمار تھی اتنا کہ لگتا وہ بستر مرگ پہ موجود ہے۔ اور بیماری جان لے ہی ٹلے گی۔آس پاس گھروں میں وہ خاتون کام کیا کرتی تھی۔ جن گھروں میں وہ کام کرتی تھی انہوں نے اس کی غربت، بگڑی ہوئی بیماری کی حالت اور ایسے میں ناکافی علاج کی صورتحال دیکھ کر موت کی پیشن گوئیاں کردیں کہ "منوری نے ہن نئیں بچنا"لیکن رب کا نظام دیکھیں کہ وہی منوری آج بھی کسی کے گھر کام کر رہی ہیں اسی غربت اور نہ کافی علاج اور بگڑی ہوئی بیماری میں اللہ تعالی نے اس کو شفائے کاملہ عطا کی۔میرے اور آپ جیسے انسان جو صرف اسباب پر نظر رکھتے ہیں ایسی صورتحال میں حیران رہ جاتے ہیں لیکن مسبب الاسباب رب ہے جو شفا کے خزانوں کا مالک ہے۔زندگی کی ان حقیقتوں پر غور کریں تو ایمان مضبوط ہو تا ہے کہ بے شک شفا منجانب اللہ اور وہ کم وسیلہ مریضوں کو بھی بیماریوں سے شفا دینے والا ہے ۔ علاج اور شفا کے لیے ہم مادی وسائل کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ ہمارا پہلا دھیان دھیان اللہ کی طرف جانا چاہیے کیونکہ شفا اللہ نے دینی ہے۔ڈاکٹر اور اس کا علاج صرف ایک وسیلہ ہے۔رسول پاکﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے بیماروں کا علاج صدقے سے کرو۔رسول رحمت کے اس فرمان پر ذرا غور فرمائیں کہ اپنے بیماروں کا علاج صدقے سے کرو۔عام مشاہدہ یہی ہے ٹیسٹوں اور علاج کے مختلف مراحل پر لاکھوں روپے لگاتے جائیں گے لیکن صدقے میں اتنی معمولی رقم دیں گے کہ ایک وقت کی ہانڈی بھی نہ بن سکے۔اپنی مالی حیثیت کے مطابق بہترین علاج کریں اور اپنی مالی حیثیت کے مطابق اللہ کہ راہ میں بہترین صدقہ دیں۔کسی غریب ترین مریض کی دواؤں کے اخراجات اٹھانا بھی شفا کا موجب بنتا ہے۔ علاج کی ترتیب میں سب سے اوپر اللہ پہ توکل صدقہ، دعا، درود پاک اور قران سے شفا کا عمل ہے اس کے ساتھ دنیاوی دوا اور علاج کے راستے اختیار کریں۔ صدقہ بلاؤں،بیماریوں اور مصیبتوں کو ٹالتا ہے اور بہترین صدقہ وہی ہے جو خوشحالی صحت اور امن کی حالت میں نعمتوں کے شکرانے کے طور پر دیا جائے۔