وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نوجوانوں کو روزگار کی سہولت فراہم کرنے کے لئے ’’کامیاب جوان‘‘ پروگرام کی منظوری دی گئی ہے۔ کامیاب جوان پروگرام کے لئے 100ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس پروگرام سے 10لاکھ نوجوان مستفید ہوں گے جن کو بنک کی طرف سے 6فیصد شرح سود پر قرض دیا جائے گا۔ روزگار پروگرام میں خواتین کے لئے 25فیصد حصہ رکھا گیا ہے۔ ایک سے پانچ لاکھ تک قرض کے خواہش مند کو 10فیصد رقم کا انتظام خود کرنا ہو گا۔5سے 50لاکھ تک کے قرض کے لئے ایکویٹی کی شرح 20فیصد ہو گی جبکہ اس پر سود کی شرح 8فیصد ہو گی۔ سکیم سے وہ تمام نوجوان فائدہ اٹھا سکیں گے جن کی عمر21سال سے 45سال تک ہے۔ پاکستان آبادی میں تیز رفتار اضافے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور مالیاتی بدانتظامی نے فیصلہ سازوں کو کبھی طویل المدتی منصوبہ بندی کی طرف مائل نہیں کیا۔ آبادی کا وہ حصہ جو جسمانی اور ذہنی لحاظ سے مضبوط اور متحرک ہے اس کا قومی معیشت میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اسی طرح بے روزگارہیں جس طرح تعلیم سے محروم بے بسی کا شکار ہیں۔ ہر سال دو فیصد آبادی بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ 2030ء تک پاکستان کی آبادی چوبیس کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے جبکہ 2050ء تک یہ ساڑھے ستائیس کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ اس وقت پاکستان کی نوجوان آبادی(15-30سال) کل آبادی کا 46فیصد ہے۔ آبادی کے اس بڑے حصے کی توانائی افلاس اور بیکاری میں برباد ہو رہی ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں میں معاشی مواقع کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ پنجاب میں آبادی کا بڑا حصہ کاشت کاری سے وابستہ ہے۔ زراعت کے طریقوں‘ ٹیکنالوجی اوراناج ذخیرہ کرنے کی جدید سہولیات کے ذریعے یہاں آسانی سے کچھ نئے روزگار پیدا ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کا بڑا حصہ بارانی ہے۔ بارانی کاشت کا طریقہ الگ ہوتا ہے تاہم سی پیک منصوبوں کے آغاز کے بعد ایسے کئی مواقع ظاہر ہو رہے ہیں جن سے بلوچستان کے بے روزگار نوجوان فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سندھ میں کراچی کاروباری و صنعتی مرکز کا درجہ رکھتا ہے مگر امن و امان کی خراب صورت حال اور آبادی کے بے تحاشا دبائو کی وجہ سے سرمایہ کار اب اس شہرکا رخ کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو یہ اختیار مل چکا ہے کہ وہ آبادی، ترقی‘ صحت‘ تعلیم اور معاشی پالیسیوں کو اپنی ضروریات کے مطابق تشکیل دیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں وزارت امور نوجوانان سمیت کسی ادارے اور محکمے کے پاس ایسے اعداد و شمارنہیں جن سے نوجوانوں کے مسائل‘ ان کی معاشی حالت اورصلاحیت کا درست اندازہ کیا جا سکے۔ جب پالیسی سازوں کے پاس بنیادی اعداد و شمار نہیں ہوں گے تو ان سے کسی ایسی پالیسی دستاویز کی توقع نہیں کی جا سکتی جو نوجوانوں کی معاشی اور روزگار ضروریات کا سو فیصد حل پیش کر سکے۔ ہمارے ہاں روزگار مارکیٹ میں آنے سے پہلے نوجوان تین طرح سے تیاری کرتا ہے۔ ایک گروپ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہو کر آتا ہے۔ دوسرا گروپ روائتی یا غیر روائتی پیشہ وارانہ تعلیم اور ہنر سیکھ کر روز گار مارکیٹ میں آتا ہے جبکہ ایک تیسرا گروپ ایسے نوجوانوں کا ہے جو ناخواندہ ہیں اورجن کے پاس کوئی ہنر بھی نہیں۔ ایسے نوجوان ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو ریاست کے فلاح و بہبود کے ہر پروگرام سے محروم رہتے ہیں اور جن کی زندگی میں ریاست کی فراہم کردہ بنیادی سہولیات کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ یہ دیہاڑی دار مزدور بنتے ہیں یا پھر کھیت مزدور کے طور پربڑے زمینداروں کی غلامی میں عمر گزار دیتے ہیں۔ جن ملکوں نے اپنے نوجوانوں کے مستقبل پر سرمایہ کاری کی وہ بہت جلد ترقی سے ہمکنار ہوئے۔ سابق حکومتوں نے کئی بار روزگار سکیمیں متعارف کرائیں۔1989ء میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے پیپلز یوتھ سکیم پیش کی۔ بعدازاں میاں نواز شریف نے ییلو کیپ سکیم دی۔ مسلم لیگ ن نے 2013ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک بار پھر نوجوانوں کے لئے روزگار کی ایک سکیم متعارف کرائی۔ اس بار مریم نواز کو اس کی سربراہ بنایا گیا۔ اس سکیم کے لئے ابتدائی طور پر 3.5ارب روپے مختص کئے گئے۔ چھوٹے کاروبار کے لئے قرضوں کی یہ سکیم مفید ثابت ہو سکتی تھی مگر اس میں جو تعلیمی اور پیشہ وارانہ شرائط رکھی گئیں اس سے نوجوانوں کی بڑی تعدادکے لئے یہ سکیم فائدہ بخش نہ رہی۔ بعدازاں حکومت نے نوجوانوں کی پیشہ وارانہ تربیت کے لئے کئی سکیمیں پیش کیں۔ سابق حکومتوں کی روزگار سکیموں سے فائدہ اٹھانے والے لوگوں کی اکثریت سیاسی کارکنوں پر مشتمل تھی۔ اکثر قرض کی رقم واپس نہ کر سکے۔ کئی ناتجربہ کاری کی وجہ سے روپیہ برباد کر بیٹھے۔ تحریک انصاف کا حامی نوجوان طبقہ ہے۔ یہ نوجوان سیاسی مصلحتوں ‘ رشوت‘ سفارش اوربدعنوانی سے بیزار ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ محنت اور ہنر سے قدموں پر کھڑا ہوا جائے۔ حکومت کی روزگار سکیم میں اگر ضمانت اور کاروبار کی نگرانی کا نظام زیادہ موثر اور آسان بنا دیا جائے تو اس کے فوائد عام نوجوان تک پہنچ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان چین کے ستر کروڑ لوگوں کی غربت سے نجات پر حیران ہوتے ہیں۔ چین نے یہ سنگ میل محروم اور پسماندہ خاندانوں کو معاشی سرگرمیوں میں شامل کرنے سے حاصل کیا۔ اس سلسلے میں یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ کشف بنک‘ اخوت فائونڈیشن ایس ایم ای بنک‘ خوشحالی بنک وغیرہ جیسے ادارے چھوٹے قرضے دینے اور ان کی واپسی کا بہترین تجربہ رکھتے ہیں۔ ایسے اداروں کے ذریعے اگر نوجوانوں کو قرض فراہم کیا جائے تو بہت سے فنڈز نئے انتظامات پر خرچ کرنے کی نوبت نہیں آئے گی اور یہ سکیم ان افراد کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گی جو اب تک ریاست کے مہربان چہرے سے واقف نہیں۔