کالم سے ایک روز کی غیر حاضری اور معمولات زندگی سے چند روز کی چھٹی،خواہش یہی تھی کہ کچھ پرسکون لمحات پہاڑوں پر فطرت کی آغوش میں گزارے جائیں۔ ان دنوں باقاعدہ اخبار سے دوری اختیار کی اور سوشل میڈیا جو ہمہ وقت جھوٹی سچی خبروں سے بھرا رہتا ہے اس سے بھی ایک فاصلے پہ رہے کہ کچھ اپنے ساتھ ربط بڑھے ۔اگر وہی روز کے ہنگام کو بھی سفر میں ساتھ ہی رکھنا ہے تو معمول کی زندگی سے وقفہ لینے کا فائدہ؟ ہمہ وقت بھاگتی دوڑتی مصروف زندگی سے وقفہ لینا بھی ایک نہایت ضروری کام ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنی روح کے برتن کو بھریں گے تو ہی اس میں سے کچھ انڈیل سکیں گے۔سو خالی ہونے سے پہلے یہ برتن بھرنا ضروری ہے ۔یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس برتن کو کیسے بھرتے ہیں۔ ویسے تو ہر روز کچھ وقت ایسا ضرور گزارنا چاہیے کہ اپنی سوچ اور اپنی روح کے برتن کو تھوڑا تھوڑا بھرتے رہیں۔ پورے دن میں بھی وقفہ لیں کسی پسندکے مشغلے کو وقت دیں ۔ اپنے آپ سے ملاقات کریں ، اپنے رب کے ساتھ جڑیں اور اپنے آس پاس کی خوبصورتی کو محسوس کریں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔ معذرت خواہ ہوں کہ میں کسی اور موضوع کی طرف چلی گئی حالانکہ لکھنا مجھے یہ تھا کہ میں نے اپنی مصروفیت سے کچھ دیر کا وقفہ لیا ۔ سوموار کی صبح پھر اخبارات اور خبروں کے مختلف ذرائع سے اپنا رابطہ بحال کیا اور دریافت کرنے کی کوشش کی کہ ان دنوں صورت بربادی یاراں کیا ہے ؟ ملک میں تین چار ایسے حادثات ہوئے جو دل دہلا دینے والے تھے۔ اس سے پہلے جڑانوالہ کا سانحہ ہو چکا تھا اور جس پر دل پہلے ہی تکلیف سے دوچار تھا۔سفر میں اس کی فالو اپ خبریں نہیں دیکھیں۔ جب اس کی فالو اپ خبریں ویڈیوز دیکھیں ناقابل بیان نقصان کا اندازہ ہوا، عجیب پشیمانی اور ویرانی کہیں اندر تک پھیل گئی۔ پھر پنڈی بھٹیاں موٹر وے پر مسافر بس کے جلنے کا ہولناک حادثہ ۔ انسان اس تکلیف اور اذیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا کہ مسافر جو اپنی منزل تک پہنچنے کی خوشی سے سر شار تھے کس طرح راستے ہی میں ڈرائیور کی غفلت سے جل کر راکھ ہو گئے۔ پھر سکھر کے رانی پور قصبے کے ایک نام نہاد پیر کے گھرانے سے، بے بس اور کم وسیلہ بچیوں کی جنسی درندگی اور ان کے اوپر ڈھائے جانے والے ظلم کی کہانیاں اور وہاں سے ملنے والی ظلم گزیدہ دس سالہ فاطمہ سے زیادتی اور قتل کی ہولناک۔داستان بے بسی اور رائیگانی کی وہ تکلیف کہ جی جانتا ہے۔ ہمارے پاس سوال ہی سوال ہیں۔اس کا سماجی اور نفسیاتی مطالعہ بھی ہونا چاہیے کہ کیسے اچھے بھلے لوگ جتھوں میں تبدیل ہوتے ہیں؟ کیسے انسانیت وحشت میں ڈھلتی ہے ؟ کیسے برداشت عدم برداشت میں بدل کر اپنے جیسے انسانوں کے گھروں کو جلانے پر انسان کو آمادہ کرتی ہے۔جڑانوالہ کا سانحہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور شرمناک سانحہ ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کی کوئی پلاننگ کی گئی تھی اور خاص طور پر دہائیوں سے پرامن طریقے سے رہنے والے مسیحی بھائیوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیواریں اٹھانے کی کوشش کی گئی۔بلاشبہ ہمارے مسیحی بہن بھائی اس وقت بہت تکلیف میں ہیں۔ شر انگیزوں نے ان کے گھر بار جلا کر ظلم کی اخیر کی ہے۔ اس کی مذمت صرف الفاظ سے کافی نہیں۔ ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ کوئی کتنا ہی بڑا سانحہ کیوں نہ ہو جائے ، وزیراعلی سے لے کر وزیراعظم تک فوری نوٹس لیتے ہیں۔ بیانات دیے جاتے ہیں۔ اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم امن برباد کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے حالانکہ بگاڑ کرنے والوں نے کیا آپ سے اجازت طلب کرنی ہے ۔ یہ تمام بیان بازی اب بہت بوسیدہ ہو چکی ہے۔ میرے خیال میں اب عمل سے چیزوں کو نظر آنا چاہیے ۔مسجدوں اور مدرسوں میں موجود امام صاحبان کا کردار اس میں بہت اہم ہے۔مسجدوں اور مدرسوں میں موجود امام صاحبان کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے ۔ میری درخواست ہے کہ ہر صوبے کی سطح پر ایسا پروگرام شروع کیا جائے کہ وہاں کے شہروں، قصبوں اور دور دراز کے دیہات کی تمام مساجد کے امام صاحبان کو ایک ٹریننگ سیشن کا حصہ بنایا جائے۔ان سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنے خطبوں اور روز مرہ کی گفتگو میں برداشت، رواداری اور دیانت کا درس دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ایسے واقعات سنائیں جن میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا اوراپنے عمل سے ثابت کیا کہ مسلمان ریاست کے اندر غیر مسلم کسی بھی طور غیر محفوظ نہیں ہوتے۔ انہیں اپنی عبادت کا حق ہوتا ہے۔ ان کے عبادت گاہیں محفوظ ہوتی ہیں۔ اسلام میں برداشت اور رواداری کا درس دیا گیاہے۔ یہ تمام بھولے ہو ئے اسباق پھر سے سکھانے ،دہرانے اوراپنے عمل کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ پورے پاکستان کے شہروں اور تمام قصبوں، دیہات میں قائم مساجد کے خطیب اور پیش امام صاحبان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں تاکہ زندگی کی بنیادی ضروریات اور اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے وہ کسی وطن دشمن کے سہولت کار نہ بنیں۔شدت پسندی پر مبنی ہر قسم کے مذہبی لٹریچر پر بھی کریک ڈاؤن ضروری ہے ۔اس وقت جڑانوالا کی مسیحی آ بادی شدید گرمی اور حبس کے موسم میں اپنے سوختہ سامان گھروں پر بیٹھے ،خاموش زبان سے اس سماج کا ماتم کر رہے ہیں جس کے کرتا دھرتا اہل اختیار اور اہل اقتدار نے کبھی اس سماج کے اندر موجود انسانوں کے کردار کو بہتر کرنے کے لیے ان کی سوچ کو تہذیب یافتہ بنانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔ظلم گزیدہ پاکستانیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ضرورت ہے۔ مسیحی بہن بھائیوں کے سوختہ گھروں کو دوبارہ سے تعمیر کیا جائے۔ ضرورت کی تمام اشیاء ان کو فراہم کی جائیں۔ حکومت کے ساتھ فلاحی تنظیمیں اور عام پاکستانی بھی اس میں حصہ ڈالنا چاہیں گے ۔یہ کم سے کم ہے جو ان کے لیے کیا جا سکے۔