ایسا ہی کچھ منظر نامہ تھا، ذوالفقار علی بھٹو کی وہ دیرینہ خواہش پوری نہیں ہو رہی تھی، جو اس نے اپنے دوست پیلو مودی کو بتائی تھی۔ مودی نے بھٹو سے کہا کہ میرے خیال میں تم پاکستان کے وزیر اعظم بن سکتے ہو تو اس نے جواب دیا پاکستان میرے لئے ایک بہت چھوٹا میدانِ عمل ہے۔ اس کی وزارتِ عظمیٰ دراصل میرا پہلا زینہ ہو گا جس پر پائوں رکھ کر میں تیسری دنیا کا رہنما بنوں گا۔ لیکن 1970ء کے انتخابات کے نتائج نے تو اس کا پہلا ہی قدم ناممکن بنا دیا تھا۔ وہ الیکشن ہار چکا تھا اور عوامی لیگ کا سربراہ شیخ مجیب الرحمن مملکتِ خداداد پاکستان کے منتخب ایوان کا سربراہ اور وزیر اعظم بننے جا رہا تھا۔ تین سو اراکین اسمبلی میں سے بھٹو کے ہاتھ صرف اکیاسی نشستیں آئی تھیں اور شیخ مجیب الرحمن کے پاس ایک سو ساٹھ نشستیں تھیں۔ بھٹو کی سیاست صرف پنجاب اور سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی اس کی مخالف جماعتیں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے جا رہی تھیں۔ خواب ٹوٹنے کا موسم بہت کربناک ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں آدمی اس بساط کو ہی اُلٹ دینا چاہتا ہے جس پر چند لمحے پہلے وہ بیٹھے ہوئے کھیل رہا ہوتا ہے۔ خورشید حسن میر پاکستان پیپلز پارٹی راولپنڈی کے رہنما تھے۔ وہ راوی ہیں کہ الیکشن کے نتائج آئے تو ہم سب بہت افسردہ تھے۔ میں گاڑی چلا رہا تھا اور میرے ساتھ والی سیٹ پر بھٹو اور پچھلی سیٹ پر پرویز رشید اور راجہ انور بیٹھے تھے۔ ہم تینوں نے مایوسی کے عالم میں بھٹو سے کہا کہ ہمارے تو سارے انقلابی خواب اب پورے نہیں ہو سکیں گے۔ اس کے جواب میں ذوالفقار علی بھٹو نے جو فقرہ کہا وہ پاکستان میں برپا ہونے والی خون آشام کشمکش کی کہانی بیان کر رہا تھا۔ اس نے کہا دیکھتے جائو میں مجیب کو یحییٰ سے مرائوں گا اور یحییٰ کو اندرا سے۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی سیاسی لیڈر شپ اور اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ اس پارٹی کے وفادار فسطائی صحافیوں نے پورے ملک میں شیخ مجیب الرحمن کو ایک ’’فتنے‘‘ اور ملک کی سا لمیت اور بقاء کے لئے ’’زہرِ قاتل‘‘ ثابت کرنا شروع کر دیا۔ بھٹو کی یہ مکروہ خواہش اس وقت پوری نہیں ہو سکتی تھی جب تک وہ اقتدار پر براجمان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ یحییٰ خان کو شیشے میں اُتار کر اپنے ساتھ نہ ملا لیتا، اور پھر دونوں مل ہی گئے۔ مغربی پاکستان میں ایک خوف کا ماحول پیدا کیا گیا تھا کہ اگر شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار مل گیا تو وہ اس ملک کو بھارت کے ہاتھوں بیچ دے گا۔ اس کے چھ نکات دراصل پاکستان کو برباد کرنے اور اس ملک کو بھارت کی کالونی بنانے کا راستہ ہیں۔ پاکستان کو اس ’’فتنے‘‘ سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ شیخ مجیب الرحمن الیکشن جیت چکا تھا۔ اس کا راستہ روکنا بہت مشکل تھا۔ انتخابات کو گزرے دو ماہ گزر چکے تھے اور منصوبہ ساز قوتیں شیخ مجیب کے ’’فتنے‘‘ سے نجات کے لئے سیاسی اور فوجی دونوں سطح پر بھر پور کوششوں میں لگی ہوئی تھیں۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ فوج میں لیفٹیننٹ جنرل تھے اور انہیں یکم مارچ کو مشرقی پاکستان کا گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر بھیجا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے حالات دیکھے اور بھٹو اور اس کی ہمرکاب اسٹیبلشمنٹ کی نیت بھانپ لی۔ انہوں نے چار صفحات پر مشتمل اپنا استعفیٰ لکھ کر یحییٰ خان کو پیش کر دیا۔ یہ چار صفحات اس مملکتِ پاکستان کی تباہی کے منصوبے کا ماتم ہے۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو بزدل قرار دے کر لیفٹیننٹ جنرل سے میجر جنرل بنا دیا گیا اور پھر انہوں نے کبھی اپنے نام کے ساتھ اپنا فوجی عہدہ تحریر نہیں کیا۔ صرف چھ دن بعد لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کو جب مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تو چیف جسٹس بی اے صدیقی نے اس سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔ مغربی پاکستان سے چیف جسٹس کو بلایا گیا لیکن کوئی ایسے حالات میں جانے کو تیار نہ ہوا۔ بی اے صدیقی کو خوفزدہ کر کے حلف لینے پر مجبور کیا گیا اور نو مارچ کو ٹکا خان گورنر بنا دیا گیا۔ جس کی سربراہی میں 26 مارچ 1971ء کو آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز ہوا۔ دھان منڈی میں واقع شیخ مجیب الرحمن کی رہائش گاہ پر آپریشن ہوا۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی اور سب سے مقبول رہنما کو لاتوں اور گھونسوں کی بارش میں گرفتار کر لیا گیا۔ شام چھ بجے ذوالفقار علی بھٹو فلائٹ پر کراچی پہنچا۔ لوگ اس کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ اس نے مختصر سی تقریر میں کہا ’’خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘۔ شاید اسی کارکردگی کا انعام تھا کہ ٹکا خان کو پیپلز پارٹی نے اپنا سیکرٹری جنرل بنایا بلکہ پنجاب کا گورنر بھی لگایا۔ مارچ 1971ء اور مارچ 2023ء میں صرف اتنا فرق ہے کہ شیخ مجیب جیت چکا تھا اور باقی سب سیاسی پارٹیاں ہار چکی تھیں۔ آج ابھی تک الیکشن نہیں ہوا، لیکن گیارہ سیاسی پارٹیوں کے اتحاد پر شکست کا خوف اس قدر سوار ہے کہ وہ متوقع جیتنے والی سیاسی پارٹی تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کو ویسے ہی ’’فتنہ‘‘ اور پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے رہی ہیں جیسے اس دور میں شیخ مجیب الرحمن کو پیش کیا جاتا تھا۔ لیکن آج سے 52 سال پہلے لہجہ اس قدر خوفناک اور تلخ نہیں تھا جیسا تلخ اور انتقام سے بھرا لہجہ مریم نواز کا ہے۔ باون سال پہلے کوئی رانا ثناء اللہ جیسا وزیر داخلہ نہیں تھا جو مسلسل للکارتا پھرے کہ میں نے شیخ مجیب کے فتنے کا سر کچلنا ہے۔ میں نے اسے گرفتار کر کے بلوچستان کی مچھ جیل میں لے جائوں گا اور اس کو اوقات میں لائوں گا۔ شیخ مجیب خوش قسمت تھا کہ اس پر پارٹی فنڈنگ، ٹیریان اور توشہ خانہ جیسے بودے کیس نہیں بنائے گئے تھے اور نہ ہی اس وقت ججوں کا یہ وطیرہ تھا کہ ایسے معمولی سے مقدمات میں بھی وارنٹ جاری کرتے پھریں اور نہ ہی یحییٰ خان حکومت اس قدر ’’سیانی‘‘ تھی کہ ان وارنٹوں پر عمل درآمد کے لئے پورے ملک کے امنِ عامہ کو خطرہ میں ڈال کر مجیب کے دھان منڈی کے گھر کو میدانِ جنگ بنا دے۔ البتہ الیکشن کمیشن بالکل ایسے ہی تھا۔ جب 26 مارچ کو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ پر پابندی لگائی گئی تو اس کے 160 اراکینِ اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات کا اعلان کر دیا گیا۔ پورے ملک کا میڈیا اس وقت کے منتخب وزیر اعظم کو ’’فتنہ‘‘ قرار دے رہا تھا۔ صرف چند آوازیں تھیں حمید اختر، عبداللہ ملک اور آئی اے رحمن تھے جو آنے والے وقت سے ڈرا رہے تھے۔ حبیب جالب نے اپنی نظم ’’بگیا لہولہان‘‘ لکھی۔ مجیب کے ’’فتنے‘‘ کی سرکوبی کے لئے ہونے والے آرمی ایکشن کے خلاف جب ’’انجمنِ جمہوریت پسند خواتین‘‘ نے طاہرہ مظہر علی اور بیگم نسیم شمیم اشرف ملک کی سربراہی میں جلوس نکالا تو لاہور کی ’’مہذب‘‘ آبادی نے ان خواتین پر تھوکا۔ پھر کیا تھا… ملک دو لخت ہو گیا۔ بھٹو برسرِ اقتدار آ گیا۔ کھر گورنر مقرر ہوا تو اس نے پورے لاہور میں پوسٹر آویزاں کرائے، ’’صحافت کے تین شیطان، حمید اختر، عبداللہ ملک اور رحمان‘‘۔ پچاس سال پہلے بات پوسٹروں تک محدود تھی لیکن آج معاملہ جلا وطنیوں، گرفتاریوں، تشدد اور ارشد شریف کی طرح، قتل تک آ پہنچا ہے۔ پچاس سال پہلے کوئی مریم نواز جیسے فاشسٹ لہجے میں نہیں بولتا تھا کہ ہمارے خلاف لکھنے والے اور بولنے والے صحافی نہیں ہیں بلکہ پارٹی ورکر ہیں، حالانکہ اس دور میں حبیب جالب اور شورش کاشمیری جیسے صحافی اور لکھاری پارٹی جلسوں میں تقریریں کیا کرتے تھے۔ آج ہم اس دَور کی نسبت زیادہ خوفناک ماحول میں زندہ ہیں، ہم اپنے مستقبل سے زیادہ مایوس ہیں۔ پچاس سال پہلے ایک الیکشن جیتے ہوئے شخص سے الیکشن ہارے ہوئے لوگوں کی لڑائی تھی۔ لیکن آج تو ہار کے ڈر سے خوفزدہ لوگ پیش بندیوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پچاس سال پہلے بھٹو اکھاڑے میں اُتر کر ہارا تھا۔ لیکن آج ملک کے سب سے مقبول رہنما کو اکھاڑے میں اُترنے سے روکا جا رہا ہے۔ چاہے اس کے نتیجے میں اکھاڑہ تباہ ہو جائے۔ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ یہ اکھاڑہ پورا پاکستان ہے اور یاد رکھو! اگر پورا پاکستان اکھاڑہ بچانے کے لئے باہر نکل آیا تو کسی کو جائے پناہ نہیں ملے گی۔