وزیر خارجہ جناب بلاول بھٹو نے کہا ہے: وہ پاکستان کے واحد وزیر خارجہ ہیں جو اپنا ٹکٹ خود خریدتا ہے اور ہوٹل کا بل بھی خود ہی ادا کرتا ہے اور بیرون ملک اخراجات کا بوجھ قومی خزانے پر نہیں ڈالتا۔ یہ بیان پڑھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ ایک وزیر خارجہ کی کارکردگی کا اصل معیار کیا ہے؟ کیا یہ معیار ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی کے نتیجے میں ملک کو کیا حاصل ہو یا معیار یہ ہے کہ اس نے بیرون ملک دوروں پر ٹکٹ خود لیا تھا یا قومی خزانے سے لیا تھا اور ہوٹل کے بل حکومت نے ادا کیے تھے یا اس نے اپنی جیب سے ادا کیے تھے ؟ اگر تو معیار اخراجات ہیں تو مرحبا لیکن اگر معیار کارکردگی ہے تو بلاول صاحب یہ چند روپوں کی بچت کا احسان اس قوم کے گلے میں ڈالنے کی بجائے کارکردگی کو موضوع کیوں نہیں بناتے؟ کیا معاشرے کا نیم خواندہ ہونا اتنا بڑا جرم ہے کہ فارن کوالیفائیڈ وزیر خارجہ کی گفتگو بھی جلسہ عام کی تقریر بن کر رہ جائے؟ یہاں سوال بلاول صاحب کی کارکردگی کے ناقص ہونے کا نہیں،سوال اس خلط مبحث کا ہے بہت تیزی سے اس معاشرے میں پھیل رہا ہے۔بطور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کچھ تقاریر ایسی کی ہیں جو بہت خوش آئند ہیں لیکن ہیں تو بس تقاریر ہی۔ یہ تقاریر ہمیں جتنی بھی اچھی لگیں حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے دور حکومت کے بعد تقریروں سے جی بھی بھر چکا ہے اور تقریریں اپنے معنی بھی کھو چکی ہیں۔اچھی تقریر کسی حد تک دل خوش کر دیتی ہے اور بلاول صاحب کی بعض تقاریر میں قومی حمیت کی جھلک نظر آتی ہے لیکن تقریر بہر حال تقریر ہی ہوتی ہے، بلاول کی ہو یا کپتان کی۔ بلاول کی بطور وزیر خارجہ شروعات اچھی ہیں۔ میں ان کا معترف ہوں۔ تنقید کی فی الوقت کوئی بڑی گنجائش نہیں ہے کیونکہ دو چار ماہ کی وزارت کا کوئی کیا جائزہ لے۔ اس لیے نکتہ ان کی کارکردگی کا نہیں،سوال اس نکتے کا ہے جس پر انہوں نے اتنے اہتمام سے فوکس کیا ہے۔ انہیںمعلوم ہونا چاہیے کہ یہ سرے سے کوئی ایشو ہی نہیں کہ ان کے کرائے اور ہوٹل کے بل وہ خود ادا کرتے ہیں یا حکومت سے لیتے ہیں۔ اس بات کو اگر وہ ایشو بنا رہے ہیں تو وہ نقص فہم کا شکار ہیں۔ اور اس پر اگر وہ داد طلب ہیں تو سادگی کا شکار ہیں۔ اور اس پر اگر وہ سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو وہ غلط وکٹ پر کھیل رہے ہیں۔ یہ انتہائی سطحی اور تکلیف دہ رجحان ہمارے معاشرے میں آ گیا ہے کہ کوئی شخص کسی منصب پر آتا ہے تو قوم کو یہ بتانے کی بجائے کہ اس منصب سے جڑے تقاضے اس نے ادا کیے یا نہیں،وہ یہ بتانے لگ جاتا ہے کہ اے غریبو! اے چیتھڑوں میں ملبوس ٹکڑے ٹکڑے کو ترستے عزیز ہم وطنو ! یہ دیکھو میں تم سے تنخواہ تک نہیں لیتا۔نہ ہی کوئی مراعات لیتا ہوں۔ ہوٹل سے کھانا بھی اپنے پیسوں سے کھاتا ہوں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ منصب پر براجمان ہو جانے کے بعد محض تنخواہ نہ لینا کون سی ’‘’ حاتم طائیت‘‘ ہے۔ اس سے پہلے بھی کچھ عہدوں پر فائز کیے گئے لوگوں نے قوم پر احسان جتایا کہ وہ تنخواہ تک نہیں لیتے۔ اسی رسم کو عمران خان نے آگے بڑھایا کہ میں تو سادہ سا بندہ ہوں، مجھے تو اللہ نے سب کچھ دے رکا تھا میری تو کوئی ضروریات ہی نہ تھیں،یہ تو میں تمہارے لیے حکومت میں آ کر دھکے کھا رہا ہوں اور لوگوں سے باتیں سن رہا ہوں۔ اب اسی رسم کو بلاول آگے لے کر بڑھ رہے ہیں۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ رسم ہی نا معتبر ہے۔ منصب سے جڑی مراعات صرف تنخواہ یا ہوٹل کے بل تک محدود نہیں ہوتیں کہ اس معمولی سی رقم کو احسان کا طوق بنا کر عوام کے گلے میں ڈال دیا جائے۔ منصب سے جڑی مراعات کا سلسلہ بہت طویل ہوتا ہے۔ بلاول صاحب ہی کو دیکھ لیجیے۔ وزارت خارجہ سے جڑے ان کے امکانات محض بیرونی دوروں کے لطف تک محدود نہیں کہ اس کا بل وہ خود دے کر رستم بن جائیں۔ ارباب اسی طرح ہونا ہے تو پھر یہ بھی تو بتائیے کہ وزارت خارجہ کے اس تجربے سے ان کے سیاسی مستقبل پر جو مفیداثرات پڑیں گے اس کا مالیاتی حجم کیا ہے؟ پھر یہ کہ بیرون ملک تو اخراجات آپ خود کرتے ہیں ، اندرون ملک کون کرتا ہے؟ سیاسی اشرافیہ کے صرف پروٹوکول پر کتنا خرچ ہوتا ہے کیا اس کا کوئی حساب ہے؟پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس کا اوسط خرچہ چھ کروڑ روپے ہے۔جو قوم یہ سب کچھ برداشت کر رہی ہے وہ اپنے وزیر خارجہ کے بیرونی دوروں کے ہوٹلوں کے بل اور جہاز کے ٹکٹ کی قیمت بھی ادا کر سکتی ہے۔ اس سخاوت سے قوم کو زیر بار احسان کرنے کی بجائے کارکردی پر توجہ دی جائے تو زیادہ بہتر ہو۔ یہ جو معمولی سے اخراجات’جیب‘ سے ادا کرنے کی بات کی جا رہی ہے، یہ جیب بھری کیسے گئی ہے؟ بہت سے مالی مقدمات تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ ایک ریفرنس تو ابھی نیب نے واپس لیا ہے۔ کچھ مقدمات کی فائلیں ہی غائب ہو گئیں۔ اس سارے کا حساب دینے کی بجائے ہوٹل کے بل اور جہاز کے ٹکٹ کے تذکرے اس اہتمام سے کرنا یہ بات جچ نہیں رہی۔ عالم یہ ہے کہ لیاری سے جماعت اسلامی کے ایم پی اے سندھ اسمبلی میں زخمی حالت میں کھڑے ہو کر پوچھتے ہیں کہ یہ کون سا بیڈ ہے جو تمہاری حکومت بارہ بارہ لاکھ میں خرید کر لیاری جنرل ہسپتال میں لائی ہے، ذرا بتائو تو یہ 66 بیڈ جو تم نے 60 کروڑ 94 لاکھ کے خریدے اس میں ہونے والی کرپشن کا حساب تو دو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ اس ایم پی اے سید عبد الرشید کے سوال کا جواب دینے کی بجائے قوم کو خطبہ سناتے ہیں کہ بطور وزیر خارجہ میں اپنے بیرون ملک سفر کے اخراجات خود ادا کر رہا ہوں۔سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو کہنا کیا چاہتے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ بلاول سید عبد الرشید پر ہونے والے تشدد پر رپورٹ مانگتے اور تحقیقات کا حکم دیتے کہ منتخب ایم پی اے پر ہسپتال میں تشدد کرنے والے کون تھے؟وہ سید عبد الرشید کو اور ساری قوم کو بتاتے کہ لیاری ہسپتال میں جو بیڈ خرید کر رکھے گئے ہیں کیا وہ چاند سے منگائی گئی لکڑی سے بنائے گئے ہیں کہ بیڈ 60 کروڑ 94 لاکھ میں پڑے ہیں ۔ نیز یہ کہ 60 کروڑ 94 لاکھ سے کتنے غیر ملکی دورے ہو سکتے ہیں ۔یہ کوئی معمولی الزام نہیں ہے ، ایک منتخب ایم پی اے نے زخمی حالت میں مار کھانے کے بعد سندھ اسمبلی میں یہ الزام لگایا ہے۔ اس کا تو کوئی جواب نہیں دے رہا اور جہاز کے چار ٹکٹ اور ہوٹل کے درجن بھر بلوں کی ادائیگی پر جناب وزیر خارجہ سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔