پاک، ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت پاکستانی سرزمین پر 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کے منصوبے کی منظوری کے لیے کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس جلد بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پاکستان نے ایران کے اربوں ڈالرز کے ممکنہ جرمانے کے خدشات سے بچنے کے اقدامات کے لیے پاک۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت تعمیراتی کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔پاک۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت تعمیراتی کام کا آغاز ایرانی سرحد سے گوادر تک کیا جائے گا اور 80 کلو میٹر پائپ لائن بچھانے کے لیے ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ پاکستان اور ایران کے درمیان 2009ء میں معاہدہ طے پایا تھا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پاکستان کو فراہم کی جائے گی۔جس کے بعد سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے 2013ء میں اس منصوبے کا افتتاح کیا تھا ،جس کے کچھ ہی عرصہ کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرتے ہوئے ختم ہو گئی تھی ۔اس کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی، جس نے اس منصوبے پر کوئی کام نہ کیا ،2018ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اپنی آئینی مددت پوری کرتے ہوئے ختم ہوگئی تھی ،جس کے بعد تحریک انصاف اور بعد میں اتحادی حکومت قائم ہوئی لیکن عوامی مفاد کا یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا،منصوبے کے تحت 1931 کلومیٹر پائپ لائن بچھائی جانی ہے ،جس میں 1150 کلومیٹر ایران اور 781 کلومیٹر پاکستان کے اندر ہوگی۔ایران منصوبے کے تحت پہلے ہی 900 کلومیٹر پائپ لائن تعمیر کرچکا ہے، تاہم ایران کی جانب سے 250 کلومیٹر پائپ لائن کی تعمیر ہونا اب بھی باقی ہے۔منصوبے کے تحت پاکستان کو جنوری 2015ء میں گیس کی سپلائی ہونا تھی تاہم اب تک منصوبہ مکمل نہ کیا جاسکا اور کب تک مکمل ہوگا اب تک یہ بھی واضح نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں 80 کلومیٹر کے منصوبے پر 15 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے،لیکن یہ اندازہ 2013ء میں لگایا گیا تھا جس کے بعد اس منصوبے کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل نہ کیا تو پاکستان کو 18 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گاجبکہ پاکستان پہلے ہی قرضے میں جکڑا ہوا ہے ۔ ماضی میں اس منصوبے کے خاتمے کی باتیں بھی سامنے آتی رہی ہیں مگر حکومت نے ہر مرتبہ ایسی باتوں کومحض افواہیں قرار دیا ہے۔سابق وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے ایک مرتبہ خود ایوان کو بتایا کہ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو ترک کرنے کی کوئی تجویز زیرِغور نہیں ہے تاہم ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ اس قابل نہیں کہ اس پر عملدرآمد کیا جائے۔انھوں نے مزید کہا تھا کہ جہاں تک پاکستان پر جرمانے کی بات ہے تواس کو ختم کرنے کے لیے بات چیت، ثالثی کے علاوہ اور بہت سے اور طریقے موجود ہیں جس کے ذریعے جرمانے کوختم کیا جاسکتا ہے۔اب یہ کہا جا رہا ہے، اس منصوبے پر پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں دستخط ہوئے تھے اور اگر یہ منصوبہ قابل عمل نہیں تھا تو حکومت نے اس منصوبے پر دستخط کیوں کیے تھے؟ایسا معاہد کرنا ہی نہیں چاہیے تھا ،لیکن اب ہمیں ماضی کی باتوں کو چھوڑ کر آگے بڑھنا ہے ۔ہمیں اب اس منصوبے کی تکمیل کے لیے عالمی عدالت انصاف جانا چاہیے تاکہ وہاں سے جا کر اجازت لی جا سکے کیونکہ اس وقت ہمیں ا س منصوبے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان پہلے توانائی کے بحران کا شکار ہے ۔اگر یہ پائپ لائن مکمل ہو جاتی ہے تو پھر پاکستان میں گیس کے بحران کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔ امریکا کو دوہرے معیارات کو ختم کرنا ہو گا، وہ بھارت کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو اسی چیز کی سزا دے رہا ہے۔بھارت ایران کے ساتھ ہر قسم کے مراسم جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ پاکستان کو منع کیا جاتا ہے ۔امریکہ کو دہرا معیار ختم کرنا چاہیے ۔ ابھرتی ہوئی علاقائی صورتحال میں ایران،پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کی اہمیت کے پیش نظر تمام ممکنہ آپشنز پر غور کرنا چاہیے، جس میں ایران اور امریکا سمیت متعلقہ فریقوں کے ساتھ قریبی روابط اور بامعنی تبادلے شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان میں گیس کا بحران ہے ،ایک عرصہ سے حکومت نے نئے کنکشن کے اجرا ء پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔جس کے باعث گیس کی چوری میں اضافہ ہو رہا ہے ۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ،اگر ایران کی طرف سے گیس پائپ لائن پر کام شروع ہو جاتا ہے تو غریبوں پر بوجھ کم سکے گا ۔جس کا فائدہ بھی حکومت کو ہی ہو گا ۔اس سے قبل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی نئے گیس میٹروں کی تنصیب پر پابندی کو واپس لینے کی تجویز پیش تھی ۔حکومت کو اس بارے میں سوچنا چاہیے جبکہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے پاکستان، ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے امریکی پابندیوں سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرے ۔اگر پاکستان کو وہاں سے ریلیف مل جاتا ہے تو اس سے نہ صرف ملک و قوم کو فائدہ ہو گا بلکہ حکومت بھی بھاری جرمانے سے بچ سکے گی ۔