قطر نے فیفا ورلڈکپ، فٹ بال میلے میں اسلامی اقدار و تعلیمات کی ترویج اور عرب روایات و کلچر کے فروغ کا اہتمام، جس خود اعتمادی اور اعزاز و اکرام سے کیا ہے، اس نے بالخصوص عالمِ اسلام کے لیے روشنی اور اْمید کے نئے دَروَاکر دیئے ہیں۔میچ کے دوران نمازکاوقت ہوتے ہی ، سٹیڈیم اذان کی روح پرورآوازسے گونج اٹھتا اور میچ رک جاتاہے،اوراس ذمہ داری پر خوبصورت لب ولہجہ کے حامل موذنین وقرأ خدمات پر مامور ہیں ،مساجد۔۔۔ کمیونٹی سنٹراوراسلامی تہذیبی مرکزکے طورپرمعتبراورمزین کئے گئے ہیں ، پورے خطے کومقدس قرآنی آیات ، احادیث نبوی اوراسلامی تاریخ کے اہم واقعات کی نمایاں فلیکسزاوربل بورڑذ سے آراستہ کیاگیا ہے۔ بالعموم اس نوعیت کے بین الاقوامی میلے عیاشی، آوارگی اور بے دریغ فحاشی کے مناظر اور مظاہر کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں، لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی اس طرح کے عالمی ایونٹ کا آغاز اللہ تعالیٰ کی پاک کلام سے ہوا ہے، جس کاشرف قطر کے مشہور حافظِ قرآن اور معروف قاری غانم المفتاح نے حاصل کیا ہے، جو کہ جسمانی طور پر اگرچہ معذور، مگر دینی اور ایمانی ولولوں اور جذبوں کے اعتبار سے مستعد اور مضبوط ہے۔20سالہ اس حافظِ قرآن کی تلاوت دنیا بھر کے پانچ سو سے زائد ٹی وی چینلز سے براہِ راست دیکھی اور سْنی گئی۔ غانم المفتاح اوائل عمری ہی میں ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے، جس میں ریڑھ کی ہڈی کے پچھلے حصّے کی گروتھ رْک جاتی ہے۔ جس کے سبب انسانی زندگی کو مستقل جسمانی معذوری سے واسطہ پڑ جاتا ہے۔ غانم المفتاح نے اس معذوری کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا، بلکہ زندگی کے میدان میں آگے پڑھنے اور نئے محاذ سَر کرنے کا عزم کیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے ساتھ، قرآنِ پاک نہ صرف حفظ کیا بلکہ تجوید و قرأت کے ساتھ اسے خوب سے خوب تر انداز میں پڑھنے کا شوق پالا۔ قطر کے معروف موٹیویشنل سپیکر اور یوٹیوبر بنے۔ ایک معتبر کاروباری فرم کے مالک اور اپنے جیسے معذور بچوں اور خاندانوں کی مدد کے لیے "الغانم فاؤنڈیشن " کے نام سے ایک فلاحی تنظیم کے بھی مدارالمہام ہیں، جس کے زیر اہتمام دنیا بھر میں ایسے معذور بچوں کی امداد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غانم ایک کھلاڑی، بہترین غوطہ خور، سمندرکی گہرائیوں میں دو سومیٹر تک اْتر جانے کا ملکہ رکھتے، اس معذوری کے عالم میں، وہیل چیئر کے بغیر، محض اپنے ہاتھوں کے سہارے طوافِ کعبہ اور سعی کرتے ہوئے عمرے کی سعادت حاصل کی۔ غانم نے افتتاحی تقریب میں سورہ الحجرات کی آیت13 تلاوت کر کے معروف امریکی اداکار مورگن فری مین کے سوال کا جواب اور دنیا میں متنوع انسانی گروہوں اور قوموں و قبیلوں کی تخلیق و تقسیم کے باوصف انکی اجتماعیت کا ذکر کیا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والا دنیاکے مہنگے ترین اسپورٹس ایونٹ کے اخراجات کا تخمینہ تقریبا 220 بلین ڈالر ہے، جو کہ پاکستان کے پانچ سال کے بجٹ کے برابر ہے۔ پاکستان کا سالانہ بجٹ47 بلین ڈالر ہے۔ محض ایک صدی قبل تک تاریکیوں اور تعفن کی آماجگاہ رہنے والی بستی، اپنی ترقی پسندی و جدت طرازی اور رنگ ونور کے اس اہتمام کے ذریعے ،اس وقت دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے۔ محض افتتاحی تقریب پر دو سو ارب ڈالر کی لاگت آئی ہے، اور اس پْر شکوہ تقریب نے شائقین فٹ بال کو خوشی و مسرت سے لبریز کردیا ہے۔ اس موقع پر عرب ممالک کے سربراہان اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی مقتدر شخصیات سمیت ساٹھ ہزار تماشائی بھی موجود تھے۔ جن میں سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان جو ویژن2030ء میں قطر کے سب سے بڑے اتحادی بھی ہیں، کے علاوہ فیفا کے عہدیداران قطری شاہی خاندان اور پھر ترکی کے صد ر رجب طیب اردگان بھی نمایاں عالمی شخصیات میں سے تھیں۔اس ورلڈ کپ میں پاکستان کے لیے اہم ترین اور بطور خاص کیا ہے ---؟پہلے نمبر پر تو یہ کہ قطر نے اس عالمی میلے کو اسلامی تعلیمات کے فروغ کا ذریعہ بنایا۔ اپنی روایات کی ترویج کے حوالے سے جہاں مسلم ممالک احساسِ کمتری کا شکار ہوتی تھیں، اس سے نکل کر، انہوں نے پورے اعتماد و یقین کے ساتھ قرآنی اور اسلامی تعلیمات کے ابلاغ کا اہتمام کیا ہے۔ مساجد کی خوب تزئین و آرائش کی، اذان کو دعوت ِدین کا صبح معنوں میں ذریعہ سمجھتے ہوئے، اس کے لیے "لحنِ خاص" کا اہتمام کیا۔ دنیا بھر سے بہترین مبلغین اور سکالرز بھی یہاں پر مدعو ہیں۔ شراب نوشی اور ہم جنس پرستی جیسے کبیرہ گناہ سے سرِ عام احتراز ہوگا۔ اسلامی شعائر کا احترام کیا جائے گا۔ یوں یہاں پر اس اہتمام کے سبب، قبولِ اسلام کی رفتار تیز تر ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دوسرایہ کہ ان عالمی مقابلوں میں پاکستان کا بنا یا ہوا فٹ بال " آفیشل گیند" کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ جس سے بالخصوص کھیلوں کی صنعت میں پاکستانی تفوق برقرار رہے گا۔ تیسرا یہ کہ یہاں پر انتظامی اور حفاظی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیز بھی مستعد ہیں۔ جس میں افواج پاکستان کا خصوصی دستہ بھی شامل ہے۔ پاکستان کے ماہرین اور لیبر ایک بہت بڑی تعداد میں، اس ایونٹ کا انفراسٹرکچر کھڑا کرنے کے لیے بھی قطری حکومت کا دست وبازو رہا، جس کی سرگرمیاں گزشتہ ایک عشرے سے جاری تھیں، کیونکہ اس ورلڈکپ کے لیے آٹھ نئے سٹیڈیم تعمیر کئے گئے، جو کہ جدید طرزِ تعمیر کا شہکار ہیں۔ دوحہ محض سو سال قبل، تاریکیوں کی آماجگاہ، ایک ایسی پسماندہ بستی تھی، جہاں خانہ بدوش ماہی گیروں کا بسیرا تھا۔ اَلقَطر:مغر ب کے مشرقی ساحل پر خلیج فارس کے کنارے ایک جزیرہ جس کا رقبہ تقریبا4647 مربع میل اور آبادی تقریبا دولاکھ تھی، جزیرہ نما کے سرے سے واقع راس، جس کا رخ شمال کی جانب ہے، راس رکن کہلاتی ہے۔ یہ زمین کا ایک سیدھا اونچا سالمبوترا قطعہ ہے جو چٹانوں سے گھر ہوا ہے، ایک ایسی رکاوٹ جو جہاز رانی کے لیے خطرے سے خالی نہ ہے۔ اس کی چوٹی پر ایک پرانا قلعہ تھا، جو اس گاؤں کا حصہ ہے۔ جو ایک قریبی گھاٹی میں واقع ہے۔ جزیرہ نما کا ساحل ہر جگہ ڈھلوان تھا، لیکن زیادہ بلند نہیں، یہاں جگہ جگہ ماہی گیروں کے گاؤں آباد تھے۔ جن کا منظر کچھ زیادہ خوشگوار نہ تھا، زمین زرخیز نہ تھی، کنکروں اور چونے کی آمیزش والی مٹی اور ریت کے سوا کچھ نظر نہ آتا۔ پانی کی فراہمی مشکل اور موسم خشک،ساحل کے ساتھ، سمند ر کے ساکن پانی کا تعفن پید اہوجانے کی وجہ سے آب و ہوا مضر صحت تھی۔ محدود باغ تھے، جن میں بہت مختصر پھل آتا تھا۔ نہ اناج کے وسیع کھیت اور نہ کھجوروں کے جھْنڈ، گدلے ساحل کیساتھ ریت اور ٹیلے اور مٹی اور کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے جھونپڑے، اور حفاظت کیلئے مختصر دیواریں۔ الدوحہ--- اس مملکت کا صدر مقام اور بندرگاہ، جس کی آبادی محض چند لاکھ نفوس پر مشتل،جہاں اب تمدنی زندگی کی تمام تر سہولتیں میسر، دخان تیل کا مرکز، اْمِّ سعید دوسری بندگاہ، جہاں پہنچ کر تیل کی پائپ لائن ختم ہوتی ہے۔ الزبارہ اور الیضا--- دیگر مشہور قصبات۔ یہ جزیرہ نما، کسی دور میں سلطان عمان کے ماتحت تھا۔ 1876ء سے 1914ء تک اس میں ترکوں کی سیادت قائم رہی۔ نومبر1917ء میں اس پر حکومت ِبرطانیہ کا تسلط قائم ہوا، یکم ستمبر1971ء کوقطر کی ریاست ایک آزاد مملکت بن گئی۔ 1922ء میں یہاں تیس لاکھ باشندے تھے۔ مگر غربت و تنگدسی اور قدرتی آفات و بلیات کے باعث یہاں کی آبادی گھٹتی چلی گئی۔ 1950ء میں یہاں صرف 24000 مچھیرے بچ گئے۔ آج قطر کا شمار دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ "کالا سونا" یعنی تیل اور گیس کے ذخائر نے یہاں کی کایا ہی پلٹ گئی۔