قطر کے دار الحکومت دوہا میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجہ میں حماس اسرائیل عارضی جنگ بندی کا اعلامیہ ایک خوش آئندا قدام ہے لیکن کیا اس پر مکمل درآمد بھی ممکن ہو سکے گا؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب اثبات میں ممکن نہیں کیونکہ اس سلسلہ میں اس سے قبل کئے جانے والے اعلامیہ بھی ہمیشہ یک طرفہ ثابت ہوتے رہے ہیں فلسطین اسرائیل تنازع کو 75سال بیت گئے ،لیکن کبھی بھی فریقین کسی ایک متفقہ نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے، فلسطینی عوام کی میدان جنگ میں فتح کو دیکھ کر مذاکرات کی میز سجائی جاتی ہے جس میں اسرائیل کے تمام مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کردیا جاتا ہے بات پتھروں سے ’’طوفان الاقصی‘‘ تک پہنچ چکی ہے اس سے بھی آگے بڑھ سکتی ہے اگر امت مسلمہ کی قیادت فلسطینی مجاہدین کی مکمل سرپرستی کیلئے تیار ہو 1948ء میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاک فضائی نے کلیدی رول ادا کیا تھا کیونکہ اس وقت قائد اعظم گورنرجنرل اور قائد ملت وزیر اعظم تھے 2023ء میں فلسطین بارے پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کا کردار کیا رہا ؟ وہ سب کے سامنے ہے ۔ کبھی فلسطین کی سر زمین سلطنت عثمانیہ کا حصہ ہوا کرتی تھی پھرسلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد فلسطین کا کنڑول تاج برطانیہ نے سنبھال لیا ،1924ء میں برطانیہ کے فلسطین کا انتظام سنبھالتے ہی یہاںیہود آباد کاری کاآغاز کیا گیا جو 100سال بعد بھی جاری ہے 1924ء میں فلسطینی عوام کی طرف سے یہودی آباد کاری کی شدید مزاحمت کی گئی لیکن وہ امریکہ اور برطانیہ کی سرپرستی میں ہونے والی یہودی آباد کا ری میں زیادہ دیر تک مزاحم نہ ہوسکے شامی مسلمان عزالدین القسام نے یہودی آباد کاری کیخلاف تحریک مزاحمت کا آغاز1930ء میں ہی کیا انہوں نے فلسطینی عوام میں سر زمین القدس کی حفاظت کا شعور بیدار کیا اور نتائج کی پروا کئے بغیر یہودی آباد کاروں کیخلاف نبرد آزما رہے 1935ء میں شہید کردیا گیا ۔عز الدین القسام کی شہادت تحریک آزادی فلسطین کو جلا بخشی اور فلسطینی عوام میں ا پنی سر زمین کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے حماس کا القسام بریگیڈ عز الدین القسام کے نام سے ہی منسوب ہے۔ دنیا کی پہلی یہودی نظریاتی ریاست اسرائیل مئی 1948ء میں قبلہ اول کی سرزمین بیت ا لمقدس پر قائم کی گئی جس کے قیام کا مقصد عرب مسلم کی دنیا پیٹھ میں چھرا گھونپنا تھا تاکہ مشرق وسطیٰ میں انہیں ہر طرح سے بلیک میل کیا جاسکے۔ عرب دنیا کو اللہ تعالیٰ نے تیل کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے عالمی طا قتوں کو یہ بات کسی صورت برداشت نہیں کہ عرب مسلمان اپنے وسائل کو اپنی مرضی سے استعمال کر یں ۔عراقی صدر صدام حسین کو یہ بات بڑی دیر میں سمجھ میں آئی جس کے بعد انھوں نے اسرائیل کو سبق سیکھانے اور عالمی طاقتوں سے ٹکر لینے کی کوشش کی لیکن جان کی بازی ہار گئے۔ انہیں اور ان کے خاندان کو پوری دنیا کیلئے نشان عبرت بنا دیا گیا ۔لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کا حشر بھی صدر صدام حسین سے مختلف نہیں ہو ا۔ ذرا ماضی کے جھروں میں جھانکیں ہمیں معلوم ہوگا کہ سعودی فرمانروا شاہ فیصل کی شہادت کا سبب بھی عالمی طاقتوں کے ایجنڈے سے روگردانی تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صیہونی ریاست کے قیام کا ا علان راتوں رات کیا گیا اور نہ ہی یہ سب کچھ آنا فانا ہوا بلکہ ایک مکمل تیاری کے ساتھ یہ کھیل کھیلا گیا ۔برطانیہ یاامریکہ کی طرف سے اسرائیل کی سرپرستی کوئی نئی بات نہیں بلکہ عالمی ایجنڈا کا حصہ ہے جس میں عالمی اداروں اور طاقتوں کی ریشہ دوانیاں پوری طرح شامل ہیں۔ عرب مسلم ممالک روز اول سے ہی اسرائیل کے قیام کے مخالف تھے اسرائیل کے قیام کا اعلان 14مئی 1948ء کو ہوا جس کے فوری بعدامریکی صدر ہیری ٹرومن نے اسی روز یہودی ریاست اسرائیل کو قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ 15مئی کو مصر، اردن، لبنان ، شام اور عراق نے اپنی فوجیں فلسطین میں اتار دیںتا کہ اسرائیل کے قیام کو روکا جاسکے لیکن اس میں انہیںکوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی اور بد قسمتی سے اس عرب اسرائیل جنگ میں عرب ممالک کی صفوں میں انتشار پیدا ہو گیا جس کے بعد سلامتی کونسل کے حکم پر ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا تاہم اس جنگ میں پاکستان کا کردار بڑا ہی مسلمہ رہاجس کو پوری امت مسلمہ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔اس جنگ میں پاک فضائیہ نے اسرائیل کیخلاف اپنے جوہر دکھائے اور بیت المقدس کے تقدس کا دفاع کیا۔ سر زمین انبیاء کی طرف بڑھنے والے پہلے اسرائیلی میراج طیارے کو مار گرانے کا اعزاز ایک پاکستانی فلائٹ لیفٹیننٹ عبد الستار علوی کو حاصل ہو۱۔ پاک فضائیہ نے اپنی کامیاب حکمت عملی سے اسرائیلی فضائیہ کا دندان شکن جواب دیا اور فلسطین کی فضائی حدود میں اسرائیلی فضائیہ سے اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا۔ مئی 2023ء میں اسرائیل کے قیام کو 75سال گزر چکے ہیں اور اسرائیل سر زمین فلسطین کے 85فیصد سے زائد حصہ پر قابض ہو چکا ہے۔ اپنی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر غزہ پر قبضہ اس کے پلان کا حصہ ہے ۔7اکتوبر حماس کا حملہ اپنے وجود کے دفاع کیلئے کیا گیا تھا اگر حماس یہ کارروائی نہ کرتی تب بھی اسرائیل کو اپنی منصوبہ بندی کے تحت یہ جارحیت کرنا ہی تھی اور اس کے ثبوت حماس کے رہنمائوئوں نے اہم فورم میں بھی پیش کردئیے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی یہ کوشش ہے کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں ا سرائیل کے وجود دوام دیا جائے اور مشرق وسطیٰ میں واقع عرب ممالک کو اسرائیلی جارحیت کے سامنے کمزور اور بے بس کردیا جائے ۔بحری بیڑے ایسے ہی بھجے جاتے اور اقوام متحدہ میں قرار داد کو بغیر کسی مقصد کے ویٹو کیا جاتا ہے۔ یہ بات کس کو معلوم نہیں کہ فلسطین کے مسئلہ کا حل دو ریاستی نہیںیک ریاستی پالیسی میں ہے۔ فلسطین کے ہوتے ہوئے اسرائیل کے وجود کا جواز نہیں اور عالمی طاقتوں کے نزدیک اسرائیل کے ہوتے ہوئے فلسطین کے وجود کا کوئی جواز نہیں اسی پالسی کے تحت اسرائیل آگے بڑھا رہا اور اپنے اہداف کو حاصل کر رہا ہے اور یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس منصوبہ کا ناکام بنانے کیلئے حماس نے7اکتوبر کو ایک کوشش کی تھی جس کے جواب میں اسرائیل نے نہتے فلسطینی عوام کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا۔