پہلے سے گلا سڑا اور بھی گلتا سڑتا، ڈگمگاتا ہوا ایک نامعقول نظام، جس کے سائے میں زندگیاں اجیرن ہیں۔ کیا خبر اس کے تہہ و بالا ہونے کا وقت قریب آلگا ہو۔ ممکن ہے کہ رفو گری کی بجائے، اب کے جامۂِ صد چاک ہی بدل جائے۔ ایسے میں ہمہ قسم لیڈروں کے چونچلے،وعدے اور دعوے۔ ایسے میں وہ ٹاک شو، جن میں ان بزرجمہروں کے افکار عالیہ کا دانشوران کرام تجزیہ کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی خطابت کا جادو جگاتا ہے۔ کوئی دور کی کوڑی لاتا ہے کہ چودھری نثار علی خان کی آمد سے ایک طوفان اٹھے گا۔ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے چودھری صاحب وضاحت کرتے ہیں کہ ان کا ارادہ حلف اٹھانے کا ہرگز نہیں تھا‘ اتنے میں صدارتی آرڈی نینس کا چرچا ہوا کہ مزید تاخیر کی اب اجازت نہیں ہو گی۔ ہدف غالباً اسحاق ڈار تھے، سینٹ کے جو ممبر ہیں مگر ایوان میں اتر نہیں سکتے۔ میاں محمد شہباز شریف کی طرح، آپ نے بھی کبھی ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ بس یہ ہے کہ نیب نام کی چڑیل تاک میں ہے۔ بیٹھے بٹھائے چودھری صاحب زد میں آ گئے۔ ایک ہفتہ پہلے تک ارادہ ان کا نہیں تھا۔ آرڈی نینس نمودار ہوا تو بیک زبان رفقا نے کہا کہ سیٹ خالی چھوڑنے کا نتیجہ منفی ہو گا۔ خانہ خالی را دیومی گیرد۔ نون لیگ یا تحریک انصاف کا امیدوار جیت گیا تو پودے کی جڑیں پھیل جائیں گی۔ادھر لاہور میں پخت و پزشروع ہوئی۔ اقتدار کی گود میں اونگھتے اور اختیار کا لطف اٹھاتے مشیرانِ کرام بڑبڑا کر اٹھے کہ چودھری آ گیا تو اللہ جانے کیا ہوگا۔ بہتر ہے کہ ابھی سے راستہ روک دیا جائے گا۔ شہسوار شہر میں داخل ہی نہ ہو‘ رزم گاہ آباد ہی نہ ہو سکے ۔ چودھری نے وضاحتی بیان جاری کیا۔ مفہوم و مدعا یہ تھا کہ صوبائی اسمبلی سے انہیں دلچسپی نہیں۔ وہ تنخواہ اور مراعات وصول نہیں کریں گے۔ ملفوف انداز میں یہ کہ ایک رسم نبھانی ہے۔ ڈیڑھ دو برس بعد کے الیکشن کا انتظار ہے۔ ڈیڑھ برس، جی ہاں، دوسروں کی طرح چودھری کا اندازہ بھی غالباً یہ ہے کہ آئندہ سال، آئندہ فروری یا مارچ میں الیکشن کا بگل بج سکتا ہے۔ وزیر اعظم جزبز ہیں، حریف جلد انتخاب چاہتے ہیں اور شاید اسٹیبلشمنٹ بھی۔ ایک ذرا سی امید شہباز شریف کے جی میں جاگ اٹھی ہے۔ ممکن ہے کہ بھائی صاحب مان جائیں۔ نون لیگی ارکان اسمبلی کی اکثریت تصادم کے حق میں نہیں۔ زبیر عمر اور شاہد خاقان عباسی بھی اشارہ کر چکے کہ مقتدرہ مہربان ہو سکتی ہے۔ بعض کے خیال میں زبانِ حال سے بلکہ یہ کہتی سنائی دیتی ہے ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں اب گمان کے لشکر دوڑنے لگے۔ بڑے بھائی اگر عنایت فرمائیں۔ شہباز شریف اگر وزیر اعظم ہو سکیں تو چودھری کی انہیں ضرورت ہو گی۔ واقعی ہو گی۔ چودھری نثار فقط فصاحت کے دریا نہیں بہاتے، عملی سیاست کے پیچ و خم بھی اکثر سے زیادہ جانتے ہیں۔ بھاگ دوڑ میں تو شہباز سپیڈ کا ثانی کوئی نہیں، پیہم حرکت میں رہنے اور دوسروں کو بھی مسلسل بھاگ دوڑ میں مبتلا رکھنے والے ۔ غور و فکر کی فرصت مگر نہیں پاتے۔ یہ وظیفہ چودھری نثار علی خان انجام دیتے ہیں، مدتوں سے دیتے آئے ہیں۔ اس تعاون کا صلہ یہ تھا کہ چکری کا چودھری عملاً شمالی پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا کردار ادا کرتا۔ شریف خاندان کی نئی نسل بالغ ہوئی تو روڑے اٹکانے لگی۔ اقتدار کے مزاج میں ارتکاز ہوتا ہے۔ وہ کم از کم ہاتھوں میں سمٹنا چاہتا ہے۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ ایک گدڑی میں دو فقیر سو سکتے ہیں مگر ایک محل میں دو بادشاہ نہیں۔ خاص طور پر نیم قبائلی معاشروں میںازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ 92نیوز کے پروگرام ’’مقابل‘‘ کا رات دس بجے آغاز ہوتا ہے۔ چھوٹتے ہی میزبان نے پوچھا :باقی کتھائیں تو الگ‘ ایسی افواہیں کیوں پھیل رہی ہیں کہ چودھری کو حلف اٹھانے نہ دیا جائے گا۔ جو کچھ عرض کیا اس کا خلاصہ یہ تھا: ہر کارگر آدمی کے حریف، حاسد اور مخالف ہوا کرتے ہیں۔ اسلام آباد میں مگر عمران خان سریر آرا ہیں۔ اپنے ہم جماعت اور دوست کے لیے وہ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا حصہ بنانے کے آرزو مند بھی۔ اختلاف بھی ان کا میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہے؛چنانچہ گتھی سلجھنے کا امکان زیادہ ہے۔ جیسے ہی آخری جملہ ادا کیا، فون کی گھنٹی بجی، غیر حاضر دماغی سے کھلی رہ گئی تھی۔ یہ چودھری پرویز الٰہی تھے۔ آواز ساقط کی۔ عجلت میں مگر ہو نہ سکی۔ دوسری دستک، فوراً ہی، گفتگو کے ہنگام ظاہر ہے کہ فون نہیں سنا جا سکتا تھا۔ وقفہ تو ہوا، اتنے میں بات ذہن سے اتر گئی۔ دوسرے وقفے میں یاد آیا تو ان کے دولت کدے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حسب مزاج چودھری صاحب نے تمہید باندھی، خیریت پوچھی اور پوچھتے رہے۔ عرض کیا:چند منٹ میں پروگرام شروع ہونے والا ہے۔ بولے:معاملہ وہ ہرگز نہیں جو تم سمجھ رہے ہو۔ چودھری نثار علی خان نے دو ماہ کی مہلت مانگی، پھر مزید تین مہینے کی۔ اس کے بعد رابطہ ہی نہ ہو سکا۔ کوشش میں نے کئی بار کی مگر ان سے بات نہ ہو سکی۔ اب خود ہی انہوں نے ایک تاریخ طے کرلی ہے۔ مزید یہ کہ مجھ ناچیز سے رابطہ کرنے کی بجائے، اسمبلی کے سٹاف کو مطلع کرنے پر اکتفا کیا۔ اب یہ کہ اس روز تو میں موجود ہی نہ ہوں گا۔ گورنر چودھری سرور رخصت پر جا رہے ہیں۔خاکسار تو گورنر ہائوس میں ہو گا۔ معاملہ قدرے پیچیدہ ہے اور ذمہ داری سپیکر کی۔ تبصرہ کرنے سے گریز کیا، ضرورت بھی کیا تھی۔ ظاہر تھا کہ حلف نہیں ہو گا۔ باقی تاریخ نہیں ہے، بھانت بھانت کی بولیاں۔ فیصلہ ابھی صادر ہونا ہے۔ وزیر اعظم بروئے کار آئیں، مگر شاید نہ آئیں کہ ایسے میں تماشا دیکھنا وہ پسند کرتے ہیں۔ ادھر اخبار نویس سوچ رہا ہے:سیاستدانوں کو کیا ادراک ہے کہ ان کی طبعی عمرپوری ہو چکی‘ ان کی اور ان کے لشکروں کی۔ذہنی عرق ریزی کی بجائے، مصالحت کی بجائے، دست و گریباں ہیں۔ آدمی ہیں، پرندے نہیں۔ الّو تو بہرحال نہیں۔ جس کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا ؎ معلوم نہیں ہے یہ خوشامد کہ حقیقت الّو کو کوئی کہہ دے اگر رات کا شہباز بظاہر تو یہ ہے کہ بجٹ پاس ہو جائے گا۔ بظاہر تو یہ ہے کہ فیصلہ سازوں کے درمیان فکر و نظر کی خلیج کم اور غلط فہمیاں زیادہ ہیں۔ حکم جنہیں صادر کرنا ہے، بظاہر ان میں مفاہمت کا امکان بہت ہے، مگر کون جانے، مگر کون جانے۔ پہلے سے گلا سڑا اور بھی گلتا سڑتا، ڈگمگاتا ہوا ایک نامعقول نظام، جس کے سائے میں زندگیاں اجیرن ہیں۔ کیا خبر اس کے تہہ و بالا ہونے کا وقت قریب آلگا ہو۔ ممکن ہے کہ رفو گری کی بجائے، اب کے جامۂِ صد چاک ہی بدل جائے۔