نیلے رنگ کی یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز ہے۔یہ 1400 صفحات کی ضخیم ترین کتاب ہے۔جسے پڑھنے کے لیے اٹھانے کو بھی ہمت درکار ہے مگر اس سے زیادہ جگرا ان المناک حقائق کو پڑھنے کے لیے چاہیے جو پاکستان ٹوٹنے کے پس منظر میں بیان کیے گئے ہیں۔ان حقائق کے راوی ممتاز بزرگ صحافی الطاف حسن قریشی ہیں جو پاکستان کی اردو صحافت کے ستون سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ذکر کے بغیر اردو صحافت کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔جن کے شاگردوں میں ہارون رشید ،مجیب الرحمن شامی جیسے اردو صحافت کے نابغے شامل ہوں۔ خود ان کی قدوقامت کا انداز لگانا مشکل نہیں۔قریشی صاحب نے اگرچہ ڈائجسٹ کی صحافت کی مگر اسی ڈائجسٹی صحافت کی اکیڈمی کے ترا شیدہ ہیرے آج اردو کے کئی روزناموں میں صحافت کی اہم ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔1960سے لے کر 2002 تک قریشی صاحب نے اس موضوع پر جو بھی لکھا اسے اس کتاب میں یکجا کردیا گیا ہے۔ جب ہم اس دور کا جائزہ لیتے ہیں جب ابھی ذرائع ابلاغ اتنے تیز نہیں تھے ٹیلی فون تک کی سہولت اتنی عام نہیں تھی الطاف حسن قریشی اس دور میں کس طرح سفر کر وہاں جاتے ہیں حالات کا جائزہ لینے کے لئے پھر جس متعلقہ شخص سے ملتے ہیں۔آج کل کے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے تیز ترین دور میں یہ سب باتیں اچھنبا معلوم ہوتی ہیں کہ دنیا اس وقت ہماری انگلیوں کی پوروں کے نیچے ہے۔تیز ترین ذرائع ابلاغ کی وجہ سے رابطے آسان ہیں۔ اسی لیے آج کی یہ ڈیجٹل صحافت ایزی کم ایزی گو والی صورتحال سے دوچار ہے۔ اعتبار اور معیار مشکل سے ہاتھ آتے ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ اس کتاب میں پڑھنے کو بہت کچھ ہے۔مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے اسباب اور عوامل کے علاوہ ہمیں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کم وبیش ساٹھ سال پہلے پاکستان میں صحافت کا رنگ کیا تھا۔ ایک ڈائجسٹ کا ایڈیٹر کتنی محنت سے دور دراز کے سفر کرتا ہے اور اپنے ڈائجسٹ کے قارئین کے لیے معیاری مواد اکھٹا کرتا ہے۔صحافت اس کے لیے محض پیشہ نہیں ایک جذبہ بھی ہے یہ جذبہ وطن اور ہم وطنوں سے محبت کے ساتھ دوآتشہ ہوتا ہے۔یہی جذبہ الطاف حسن قریشی کو مشرقی پاکستان کے حوالے سے سوچنے ، ان کا درد محسوس کرنے کے لیے بے چین کرتا ہے۔لکھتے ہیں کہ پاکستان کے مشرقی بازو میں جب کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا یا کسی بحرانی کیفیت کے آثار نمودار ہونے لگے تو میں وہاں ضرور جاتا ، قیام کرتا صحافیوں، طالب علموں ،سیاستدانوں اور دینی رہنماؤں سے ملتا اور مسائل کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔وہ پہلی بارمشرقی پاکستان جولائی 1964 میں گئے اور وہ اپنے ماہنامے ،اردو ڈائجسٹ کے لئے ڈھاکہ کورٹ کے چیف جسٹس کا انٹرویو لینے کے لیے گئے تھے۔ لکھتے ہیں "فاضل چیف جسٹس کے انٹرویو اور ان کی گفتگو کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستانی اور بنگالی بھائیوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے اور بنگالی عوام کے اندر مغربی پاکستان کی طرف سے ہونے والی انصافیوں کے خلاف بے چینی پائی جاتی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ میں پوشیدہ اسباق "کتاب کا آخری باب ہے۔اس میں وجوہات کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجہ بنے۔ میں اس میں صرف دو کا ذکر کروں گی جس میں ایک تو زبان اور ثقافت کا فرق عزت نفس کی حفاظت۔سانحہ مشرقی پاکستان سے ایک سبق یہ بھی حاصل ہوا کہ زبان و ثقافت کو انسانی معاملات میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔مشرقی اور مغربی حصوں کو دو تہذیبی منطقے قرار دینے کی بجائے انہیں ایک وحدت سمجھ لیا اور اس نکتہ پر ضرورت سے زیادہ زور دیا کہ ایک قوم کی ایک زبان ایک تہذیب ایک تشخص ہوتا ہے۔مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کو دوسری قومی زبان بنانے کی تحریک شروع ہوئی ۔زبان کی تحریک اور اس سے پیدا ہونے والے تنازعے پر جو فسادات ہوئے اس میں بہت سا نقصان ہوا اور بالآخر 1956 کے دستور میں بنگلہ کو دوسری قومی زبان تسلیم کرلیا گیالیکن اس سے جو بدمزگی پیدا ہوئی اور دلوں میں جو رنجش میں پیدا ہوئی اس کا حل نہ نکل سکا۔ایک اور سبق یہ ملا کہ غربت اور افلاس انسان کے لیے قابل برداشت ہے لیکن عزت نفس کی پامالی قابل برداشت نہیں۔مغربی پاکستان سے زیادہ تر سرکاری افسر ایسے گئے جن کے طور انگریزوں جیسے تھے جو بنگالیوں کے ساتھ اہانت آمیز سلوک رکھتے تھے یہ آخری باب ایک دردمند سچے پاکستانی صحافی کا بے لاگ تجزیہ ہے اسے حرف بہ حرف پڑھنا چاہیئے۔خاص طور پر ارباب اقتدار و اختیار کو ، اور اسٹیبلشمنٹ کے سٹیک ہولڈرز کو ،تاکہ سقوط مشرقی پاکستان سے سبق سیکھ کر اپنی موجود مسائل کو حساسیت اور ہمدردانہ سوچ کے ساتھ حل کرنے کی سمت بڑھتیرہیں۔ بلوچستان میں سلگتے ہمہ جہت مسائل کو مشرقی پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو احساس ہوگا کہ یہاں کے تمام ،سٹیک ہولڈرز اور ارباب اختیار کو کس طرح انتہاء حساسیت کے ساتھ مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔میرا بس چلے تو کتاب کے اس آخری باب کو خلاصے کی صورت لکھ کر ایسے تمام سرکاری دفاتر میں آویزاں کردیا جائے جہاں ملکی اور قومی سلامتی کے حوالے سے اہم فیصلے ہوتے ہیں۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے اس کتاب کو مرتب کر کے ایک قومی فریضہ سرانجام دیا ہے ایک ہی جلد میں ان تمام تحاریر کو جمع کرنے سے ایک مجموعی تاثر قائم کرنا آسان ہوتا ہے۔ ملک کے بہترین اشاعتی ادارے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے سر پرست محترم عبد الستار عاصم نے اس اہم کتاب کی اشاعت کا اہتمام کرکے پاکستان سے محبت کا ثبوت دیا۔یہ کتاب ریفرنس کے طور پر استعمال ہوتی رہے گی۔اور آج کا طالب علم بھی جو سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے کے پس پردہ عوامل کو سمجھنا چاہتا ہے اس کے لیے یہ ایک کتاب ہی کافی ہوگی۔ کیونکہ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ حقائق پر مبنی تاریخ کی لہولہو دستاویز ہے۔