آنجہانی میرا ڈونا کو کون نہیں جانتا ؟ممکن نہیں کہ ہر وہ شخص جس کے جوتے کبھی فٹبال سے مَس ہوئے ہوں اور وہ دس نمبر کی جرسی میں ساڑھے پانچ فٹ کے میرا ڈونا کو نہ جانتا ہو،یہ 1986ء کے ورلڈ کپ کی بات ہے دس نمبر کی جرسی میں قدرے فربہی مائل میراڈونامیکسکو میں ارجنٹائن کے روائتی حریف انگلستان کے خلاف میدان میں اپنی ٹیم کی کمان کررہا تھا،یہ کوارٹر فائنل تھا ارجنٹائن چار برس پہلے ہی انگلینڈ سے فاک لینڈ کی جنگ ہاراتھا،اس لئے اس میچ کا درجہ ء حرارت بہت زیادہ تھا،میچ کا پہلا ہاف صفر صفر سے برابر رہا،دوسرے ہاف کے 51ویں منٹ میں ارجنٹائن کی ٹیم انگلینڈ کے پینلٹی باکس کے کنارے سے گیند کو اپنے ساتھیوں کی طرف دھکیل رہی تھی ،انگلینڈ کے مڈفیلڈراسٹیو ہوج نے گیند کو پرے پھینکنے کی کوشش کی لیکن ان کی کک سے گیند گول کیپر کی طرف فضا میں بلند ہوگئی ایسی کسی بھی صورتحا ل میں گول کیپر اچک کرفٹبال تھام لیتا ہے ،یہ مشکل نہ تھا ۔خاص طور پر جب سامنے کوئی لمبا تڑنگا اسٹرائکر نہیں، پانچ فٹ پانچ انچ کا میراڈونا ہو لیکن قبل اس کے کہ گول کیپر گیند قابو کرتامیراڈونا نے گیند جال کے پچھلے حصے میں پہنچا دی تماشائیوں کی جانب سے شور بلند ہوا،دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں ارجنٹینیوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اپنی نشستوںسے اچھلیں اور ہوا میں تیرنا شروع کردیںلیکن کیا یہ واقعی گول تھا؟ پہلی نظر میں ایسے ہی لگا کہ میراڈونا نے گیند سر کی ٹکر سے جال میں پھینکی ہے، لیکن ری پلے میں میرا ڈونا کی بے ایمانی پکڑ ی گئی دیکھا جاسکتا تھا کہ میراڈونا نے مکے سے گیند کو گول میں دھکیلا ہے ،یہ گول ویڈیو اسسٹنٹ ریفری یا VAR کے استعمال سے کئی دہائیاں پہلے کی بات ہے،جائزہ لینے کا کوئی طریقہ تو تھا نہیں ،ریفری پر ہی تکیہ کرنا پڑتا تھا، یہاں ریفری کو واضح دکھائی نہ دیا، اس نے رہنمائی کے لیے لائن مین کی طرف دیکھا لائن مین بھی میرا ڈونا کی بے ایمانی پکڑ نہ سکا، سو اسے گول قرارد ے دیا گیا،اگرچہ اس گول کے بعد میراڈونا نے ایک اور شاندار گول کیا، جسے صدی کے بہترین گولوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے لیکن دوسرے گول کی خوبصورتی سے پہلے گول کی بدنمائی چھپ سکتی تھی اور نہ چھپی۔ میچ کے بعد صحافیوںنے میراڈوناسے اس گول کے بارے میں سوال کیا تو میراڈونا نے جواب دیا’’ گول تھوڑا سا میراڈونا کے سر نے کیااور تھوڑا سا خدا کے ہاتھ نے ۔۔۔‘‘ اس جملے سے اس بے ایمانی کو ’’ہینڈ آف گاڈ‘‘کا نام ملا اور اسی نام سے آج تک جانی جاتی ہے اس مقابلے کے بعد انگلینڈ کوارٹر فائنل میں ہار کر ورلڈکپ کی دوڑ سے باہر ہوگیا اور ارجنٹائن نے انگلینڈ سے82ء میں ہونے والی فاک لینڈ جنگ کی ہار کا بدلہ لے لیا ۔میراڈونا نے بھی یہی کہا تھا کہ اس کا مقصد ایک میچ جیتنے سے زیادہ انگریزوں کو مقابلے سے باہر کرنا تھا اور یہ کہ یہ میچ جیتنا کسی ٹیم کو ہرانا نہیں بلکہ ایک پورے ملک کو ہرانا تھا میرا ڈونا اپنے ملک کے لئے جیت تو لے آیا لیکن اسپورٹس مین اسپرٹ کی انڈیکس میں کہیں نیچے چلا گیا،حیرت کی بات یہ میراڈونا کے ضمیر نے بھی اسے کبھی کچوکے نہ لگائے اگر کبھی لگائے بھی تو میراڈونا نے نشے کا سہارہ لے کرجان چھڑالی۔ اسلام آباد کلب کے فیملی ہال کی جانب بڑھتے ہوئے مجھے میراڈونابھی یاد آرہا تھااور86ء کے جعلی گول کا گواہ انگلینڈ کا گول کیپر پیٹر شلٹن بھی، جو آج بھی اس بات پر نالاں ہے کہ میراڈونا کوکم ازکم مرنے سے پہلے اپنی غلطی کی معافی مانگ لینی چاہئے تھی۔۔۔فیملی ہال میںمیرا منتظر ایسا ہی ایک ’’پیٹرشلٹن‘‘ تھا جنہوں نے کچھ دن پہلے ہی اپنی یقینی جیت کو بے ایمانی سے شکست میں بدلتے دیکھا لیکن حیرت انگیز طور پر ان کا چہرہ اترا ہوا تھا نہ آواز میں نقاہت تھی بلکہ آنکھوں میں وہی فائٹر پائلٹ کا سا جھپٹ پڑنے کا عزم تھا۔۔۔ میری نظروں نے بار باران کے چہرے کا طواف کیا، شائد ہی شکست و مات کے کچھ آثار نظر آجائیں لیکن ایسا کچھ نہ تھا یہاں آنے سے پہلے میں ان کے لئے حوصلہ افزائی اور ڈھارس بندھانے والے الفاظ کھوجتا آیا تھا کہ میری ملاقات ایک ہارے ہوئے شخص سے ہونی ہے مگر میں غلط تھا شکست توتب ہوتی ہے جب بندہ تسلیم کرے اور حافظ نعیم الرحمن شکست مانتے تو ہوتی انہوں نے میدان چھوڑا تھا نہ اپنا موقف۔ اسلام آباد کلب کے فیملی ہال میں ہم جماعت اسلامی اسلام آباد کے نرم گفتار امیر نصراللہ رندھاوا صاحب کی میزبانی میں ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے سات آٹھ افراد تھے سوال پر سوال ہو رہے تھے اور حافظ صاحب مسکراتے ہوئے جواب دے رہے تھے۔ پوچھا’’ آگے کی کیا پلاننگ ہے؟‘‘ حافظ صاحب مسکرائے اور کہا کام کریں گے اور پیپلز پارٹی کو مزیدایکسپوز کریں گے ان سے کام کروائیں گے، اب ان کے پاس کوئی ایکسکیوز نہیں ہے، وفاق میں بھی انکی حکومت ہے اور سندھ میں بھی اوراب تو کراچی بھی انہوں نے ہتھیا لیا ہے … اس وقت تو یہ ہمارے حوالے سے اتنے حساس ہیں کہ ہمارے ٹاؤن کے ایک یوسی کونسلر نے کہیں سوشل میڈیا پر ابلتے گٹر کی تصویر ڈال دی تو میئر کراچی صاحب خود پہنچ گئے، دیکھیں جی جماعت اسلامی کا ٹاؤن ہے اور انکی ایک شکائت پر میں خود پہنچا ہوں، حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کراچی کا قرض اورالیکشن کمیشن سمیت اداروںکا فرض ہے کہ وہ میئر کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے اکتیس ارکان کی گمشدگی کا پتہ کرائیں وہ کہاں اور کس کے پاس تھے انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کیوں نہیں دیا گیا،حافظ صاحب اپنے اصولی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ بھی جانتے ہیں اورمجھے بھی خوش فہمی نہیں کہ کوئی انکوائری ہوگی!اب رہ گئی بات ضمیر کی تو جانے ہی دیں ہماری سیاست میں ’’میرا ڈوناؤں‘‘ کی کمی نہیں، اکہتر میں توملک دولخت ہو گیاتھاپاکستان کا آدھا وجود علیحدہ کردیا گیا تھا لیکن آج تک کسی میراڈونا کا ضمیر نہ جاگا یہ تو پھرایک شہر کا معرکہ تھا!