ارباب اقتدار کو سمجھ نہیں آرہی کہ مہنگائی کتنی بڑھ چکی ؟ایسی تاریک زندگی کبھی پہلے نہ تھی،لوگ بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے گھریلوسامان فروخت کر رہے ہیں،کئی تو بچے بھی۔اے ارباب اقتدار !ظلم و ستم تابکے؟لوٹ مارتاچند؟کب تک پاک سرزمین کو اپنے حیوانی غرور سے ناپاک رکھو گے ؟کب تک انصاف ظلم اور روشنی تاریکی سے مغلوب رہے گی ؟ارباب ِ اقتدار نے خلق خدا پر بڑے ظلم کیے ۔عوام پر ظلم کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لینے کی دوڑ لگی ہوئی ۔دست بدستہ گزارش ہے، بوٹیاں اس طرح نوچی جائیں کہ ہر سیاسی بھیڑیئے کے منہ میںمساوی لقمہ آ جائے ۔ملک کو بنے 76برس بیت گئے ۔مسائل ابھی جوں کے توں۔ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مہنگائی اڑتالیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ شہروں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں مہنگائی بتیس فیصد سے متجاوز۔1975 ء کے بعد یہ ملک میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء اور شادی ہالز کے کرایوں میں بھی اضافہ۔ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی 45 فیصد بڑھ چکے ۔ تعلیمی اخراجات15 جبکہ اسٹیشنری کے نرخوں میں 55 فیصد اضافہ ریکارڈ ہو چکا ہے۔ آج سے 8برس قبل قوم کو خوش کن خبر دی گئی تھی ،کہ اب کبھی بھی آئی،ایم،ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑیگی۔ الوداع آئی،ایم،ایف۔حالات نے پلٹا کھایا اور چھوٹا بھائی اقتدار میں آیا تو آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر ملنے پراس کی خوشی دیدنی تھی،جیسے کشمیر فتح کرلیا ہو۔ خوش آمدید آئی ایم ایف کہنے والے کرداروں کے چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں ۔مہنگائی شیش ناگوں کی طرح پھنکار رہی ہے ۔بجلی کے بل بے قابو۔معیشت تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہو رہی ۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی، گیس پٹرول کی قیمتوں میں جان لیوااضافہ۔غریب پراس قدر بوجھ ڈالا گیا ہے کہ اب ہر سو احتجاجی مظاہرے پھوٹ رہے۔اشرافیہ پر کوئی بوجھ نہیں ۔سابق وزیر اعظم اپنی فیملی کے ہمراہ لندن کے ٹھنڈے موسم کو انجوائے کر رہے ۔نگران وزیر اعظم، وزراء اعلیٰ ، وزراء ،مشیر اور معاونین سمیت وی آئی پیز کو نا صرف مہنگا پٹرول خریدنا نہیں پڑتا بلکہ مفت ملتا ہے۔نگران وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ عوام مایوس ہو کر ملک سے باہر جا رہے۔انھوں نے بے رخی سے جواب دیا جانے دیں ۔ آنے والے کل میں کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا ۔مگر قرائن بتا رہے ہیں کہ وقت ایک نیا ورق الٹنے والا ہے ۔ اب کسی لیڈر کا انتظار ہو گا نہ ہی تاریخ کا ۔عوامی احتجاج جب بے لگام ہجوم اورجتھوں کی شکل اختیار کر لے تو بڑی بڑی طاقتیں اس کے سامنے خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتی ہیں ۔ عوامی احتجاج کو نظر انداز کرنے والوں کو بجلی کا بل ادا نہیں کرنا پڑتا، مگر حیرت انگیز طور پر آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے کے لئے عوام پر بوجھ ڈالا جا رہا۔ ہاں اس کے ساتھ ہی وی آئی پیز کو دی گئی مراعات ختم کی دی جاتیں تو غم و غصے میں کمی واقع ہو سکتی تھی۔ الیس منکم رجل الرشید۔کوئی ایک بھی صاحب عقل نہیں ،جو انھیں عوامی اشتعال سے بچنے کی راہ دکھائے۔ شہباز شریف کے اندر لیڈر بننے کی ایک چھوٹی سی رمق بھی نہ تھی ۔ مگر حالات نے اسے بڑی مسند پر بیٹھا دیا۔پھر وفاداری بشرط استواری کی بنیاد پر ایک ایک زینہ چڑھتے ہوئے منزل مقصود کو پہنچ گئے۔مہم جوئی اور سازش ان کا مزاج نہیں ،سہاروں کے بل جینے والے ہیں ۔اوپر سے دبائو پڑتا تو جھک جاتے۔طوفان میں جیسے لچکدار درخت ۔کسی معاملے پر اتحادی ڈٹ جاتے تو درمیان کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ۔ پی سی بی چیئرمین شپ میں نجم سیٹھی اور ذکاء اشرف کا معاملہ سب کے سامنے ۔ایسا آدمی چابی والا کھلونا ہوتا ہے، کبھی لیڈر نہیں بن سکتا ۔ووٹر آج بھی نواز شریف کا منتظر اور مریم نواز کے گرد جمع ۔مگرکب تک ؟جب تک قومی لیڈر میسر نہیں۔ نگران حکومت دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پہ چل رہی۔یار لوگ بھی صندوقچیوں سے دیرینہ خوابوں کے تعبیر نامے برآمد کرنے کے خواہاں ہیں۔مگر عوام اب اپنے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈلنے دیں گے ۔ملک کو اندھی تاریک راہوں میں جھونکنے کی کوشش کی گئی تو تصادم ہو گا ۔جس کا فیصلہ اب عوام کر چکے ۔ ملک کے مختلف شہرو ں میں بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو چکے۔ کراچی، راولپنڈی، ملتان ، پشاور، گوجرانوالہ ،پشاور ،نارووال، اٹک، سرگودھا اور ہری پور سمیت دیگر شہروں میں بھی مہنگی بجلی پر احتجاج جاری ہیں۔ احتجاجی یاد رکھیں ! بیچ بو کر مسلسل آبیاری سے پھل ملتا ہے۔عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب ۔عوام اگراس مشق کو جاری رکھیں گے تو چند دنوں کا کھیل ہے ۔سارے معاہدے اور عہد و پیمان خاک میں مل سکتے ہیں ۔اگر کسی سیاسی پارٹی نے اس احتجاج کو ہائی جیک کر لیا تو پھر وہی ہو گا جو ماضی میں ہوتا آیا ۔یہ ملک کلمے کی بنیاد پر قائم ہوا ،عوام کا آپس میں رشتہ لا الہ الا اللہ کے اقرار کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔دنیا کے تمام رشتے ٹوٹ سکتے ہیں مگر یہ رشتہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا ۔ایک والد اپنے بیٹے سے ناراض ہو سکتا ہے،ایک والدہ اپنے بچے کو گود سے الگ کر سکتی ہے ،بھائی بھائی کا دشمن بن سکتا ہے ۔دنیا کے تمام عہد و پیمان ، محبت اور وفاداری کے حلف ٹوٹ سکتے ہیں مگر کلمے کی بنیاد پر بنا رشتہ نہیں ٹوٹ سکتا ۔لہذا ملکی املاک کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں اور اپنے حقوق واپس لیں ۔بیرون ملک علاج کرانے اورسیاسی پناہ گاہوں کے متلاشیوںکو ابھی جواب دینا ہو گا۔کہ وہ کب تک عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالے بیٹھے رہیں گے ۔