سویا ہوا تھا شہر تو بیدار کون تھا سب دم بخود ہیں ایسا خطا کار کون تھا اب تک کسی کو بھیک میں عزت نہیں ملی اے خوش گمان اس کا طلبگار کون تھا اور پھر یہ بھی ہے کہ ’ کردار تھے کسی کے کہانی کسی کی تھی، کوئی بتائے صاحب کردار کون تھا‘حد ہو گئی پوری قوم کو سولی پر چڑھا کر یہ جا اور وہ جا۔ حکمران بڑے رسان سے کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ یہ سب آئی ایم ایف کا کیا دھرا ہے۔ عدیم ہاشمی نے کہا تھا غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں، آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر‘لوگ بجلی اور پٹرول کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے خلاف سڑکوں پر آ گئے ہیں اس سے اگلا اندیشہ خانہ جنگی کا ہے۔لوگوں کو مکمل شعور مل چکا ہے کہ دو تین فیصد مراعات یافتہ لوگ باقی عوام کا خون نچوڑ کر پی رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کے منہ کو خون لگ چکا ہے ان صاحبان سپید و سیاہ کے بجلی سے لے کر ٹیلی فون تک فری ہیں ،انکی بلا سے کوئی مرے یا جیے۔ یہ سب لوگ جو غیر انسانی رویوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہی کہ اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں۔غریب تو جیتے جی مر گیا ۔اس پر بجلی کے بھاری بل ہتھوڑے کی طرح برسائے جا رہے ہیں۔ جگہ جگہ بجلی کے بلا جلائے جا رہے ہیں۔ بہت ہو چکی اب عوام بپھر چکے ہیں۔ ہر شخص کہتا نظر آتا ہے کہ مصلحت کوشو! اٹھو خواب لٹے جاتے ہیں۔زندہ رہنے کے بھی اسباب لٹے جاتے ہیں۔ نگرانوں کے آنے سے بھی کچھ سیھا نہیں ہوا۔یہ تو ایسے ہے جیسے خربوزوں کی راکھی پر گیدڑ ہوں۔سارے خربوزے نگرانی کرنے والے ہی کھا جاتے ہیں ،کوئی پھیکا خربوزہ بھی دوسروں تک نہیں آیا۔ یہ مراعات یافتہ لوگ جو دس دس بارہ بارہ لاکھ تنخواہیں اور پنشنیں لیتے ہیں، ریٹائرمنٹ پر پلاٹ اور دوسری اشیا۔۔۔ پاکستان تو اصل میں انہی لوگوں کا ہے، یہ اشرافیہ جو عرف عام میں بدمعاشیہ ہے۔عوام کے تڑپنے کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔خالد احمد نے کہا تھا: شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے سنگ آنکھیں نہیں رکھتے ہیں کہ سر دیکھیں گے اس قبیح نظام کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔مصیبت یہ کہ جو بھی آیا وہ اس گندے نظام میں اس کا کل پرزہ بن گیا۔ اس نظام نے قاسم کے ابا کو بھی نہیں چلنے دیا ۔بات ذھن میں رکھیں ۔اچھے نظام میں برا آدمی بھی کھل کر نہیں کھیل سکتا جبکہ برے نظام میں اچھا آدمی اچھی طرح پرفارم نہیں کر سکتا۔نظام میں صرف اوپر کے لوگ ہی نہیں نیچے کے بھی ہیں ان کو ایسا بنانے والے ہم ہیں۔ہم بھی انہی کے طفیلی بن جاتے ہیں ان سے اغماض کرنے والے: ہم لوگ ظلم سہنے کے عادی ہوئے تو پھر ظالم کا ظلم کرنا بھی معمول ہو گیا یہ ظلم عظیم ہے کہ قرضے لیتے یہ یہ مراعات یافتی لوگ اور حکمران لیتے ہیں اور بھرتی عوام ہے۔ کھیر کھان نوں باندری تے ڈنڈے کھان نوں ریچھ۔یہ ریٹائرمنٹ پر بھی زمینیں اور مراعات لینے والے ۔اب وقت آ گیا ہے جس کا خواب فیض دیکھتے تھے کہ ٹوٹ گریں گی زنجیریں اور وہی کہ ہم دیکھیں گے پہلے تو عوام کا بازو مروڑا گیا اور اب گردن بھی مروڑ دی ہے ۔تنگ آئی ہوئی بلی بھی شیر کی آنکھیں نکال دیتی ہے۔ وہی جو کہا جاتا ہے کہ کسی غریب کی اخیر نہ دیکھو۔ مجھے معلوم ہے کہ میں ذرا تلخ ہو گیا ہوں کہ آج مرے دل درد کچھ سوا ہو رہا ہے۔ اب کیا لوگ مر جائیں قسطوں میں مارا جا رہا ہے۔ وہی شاکر شجاع آبادی کے بقول کہ یک لخت مکا تری جان چھٹے۔ صاحبان فرماتے ہیں ڈالر 315کا ہو گیا تو کیا ہو گیا پٹرول تین سو پر پہنچا تو کیا ہو گیا۔ یہ کیا ہو گیا والی بات بھرے پیٹ کی پیداوار ہے اور یہ عام لوگوں کیر تذلیل ہے۔ تو بہ توبہ کوئی لوٹ مار سی لوٹ مار ہے وقت ضائع کیا جا رہا ہے ۔ انتخابات کس کی ذمہ داری ہے، یہ کون کرائے گا۔کسی کے پاس بھی ہمت اور سکت نہیں کہ بات کرے۔ یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں وہ جو عباس تابش کہتا ہے: دیوار ہے کسی کی دریجہ کسی کا ہے لگتا ہے گھر کا گھر ہی اثاثہ کسی کا ہے تو جناب لوگ خوشی سے سڑکوں پر نہیں آتے آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عام آدمی جو مر کر مہینے کے تیس پینتیس ہزار کماتا ہے (یہ بھی میں زیادہ لکھ رہا ہوں )وہ آٹھ نو ہزار کا بجلی بل کہاں سے ادا کرے گا ،آپ یقین کریں کہ میرا حجام مجھے بتانے لگا کہ اگر گاہک دکان میں نہ ہو تو وہ اپنے کاریگروں سمیت باہر نکل سامنے کے نیچے سائے میں بیٹھ جاتا ہے ہمارے جاننے والے تو بجلی کے باعث ایک کمرے میں بیٹھ کر اے سی لگا لیتے ہیں۔ گویا زندگی کھینچی جا رہی ہے۔ کوئی پوچھے کہ واپڈا والے مفت بجلی کیوں استعمال کرتے ہیں، ملک میں جتنی بھی بجلی چوری ہوتی ہے وہ شریف شہریوں پر ڈال دی جاتی ہے ۔سارے لاسز عوام بھرتے ہیں ۔ اشرافیہ کی عیش و عشرت کہ عوام ان کے سگریٹوں کی جگہ جلتے ہیں۔ ساری عمر ملک کو لوٹنے والے اس میں رہنا پسند نہیں کرتے، ساری عمر باہر جا کر رہنے کی تیاری اور اسباب پیدا کرتے ہیں۔ تف ہے ان پر اور تف ہے ہم پرکہ انہیں برداشت کرتے ہیں۔ کتنے بدنصیب ہیں کہ ہم ان مٹھی بھر لوگوں سے اپنی قومی زبان دفتری زبان نہیں بنوا سکتے۔کیا ہم زندہ ہیں یا مر حکے ہیں اور فارمیلیٹی کے طور پر سانس لے رہے ہیں۔مجھے معلوم ہے آپ بھی میری طرح ہی سوچتے ہیں مگر سوچنے کا وقت گزر چکا ہے۔ کیا کریں سچ نہ بو لیں تو اندر سے ہمیں کھا جائے گا ۔