ڈیجیٹل ایج میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اگر سوشل میڈیا کی مقبولیت کا گراف چیک کیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کا کوئی ثانی نہیں ملے گا لیکن کیا یہ مقبولیت کا گراف حقیقی ہے یا پھر نہیں اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکلنے سے قبل ایک حقیقت کو جاننے کی ضرورت ہے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کا چیلنج پنجاب میں تھا جہاں اسے پنجاب کی اسوقت کی سب سے مقبول جماعت ن لیگ سے ٹکرانا تھا دو ہزار اٹھارہ میں پنجاب میں ن لیگ نے جن حالات میں الیکشن لڑا وہ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن اسکے باوجود ن لیگ نے سخت مقابلہ کیا اور ایک لمحے کو ن لیگ پنجاب میں حکومت بنانے کے قریب پہنچ چکی تھی تاہم پھر اس وقت چئیرمین پی ٹی آئی کیلئے جہانگیر ترین اور علیم خان نے آزاد امیدواروں کی لائنیں لگا دیں اور ایک ایسا کردار ادا کیا جہاں پنجاب میں ن لیگ حکومت بناتے بناتے رہ گئی اور پنجاب کی قسمت میں وسیم اکرم پلس یعنی عثمان بزدار آئے۔ مرکز ہو یا پنجاب دونوں جگہوں پر تحریک انصاف کی حکومت صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بل پر کھڑی تھی جس دن اسٹیبلشمنٹ نے اپنا ہاتھ کھینچا اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مرکز اور پنجاب میں دھڑام سے گر پڑیں پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین کے غیر سیاسی رویوں نے اس جماعت کو اس عدم اعتماد کے بعد ایک ایسے اندھیرے کنویں میں دھکیل دیا جہاں سے واپسی مشکل ہی نظر آتی ہے اور اسکی ذمے داری صرف اور صرف چئیرمین تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے جسکے بعد تحریک انصاف کی دو ہزار اٹھارہ سے واپس کہیں دو ہزار تیرہ کا سفر شروع ہوچکا ہے جب یہ بات کی جائے تو فی الفور یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اب بھی مقبولیت کی معراج پر ہے۔ کیا یہ سوشل میڈیا پر قائم تاثرکی بنیاد پر ہے یا زمینی حقائق یہی ہیں۔ سیاسی گفتگو میں اگر دلیل شامل نہ ہو تو وہ بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی آج مقبولیت کی معراج پر ہے یا دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں تھی اگر ہم یہ مان لیں کہ آج یا تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی سب سے زیادہ مقبول ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ لاہور سے اسلام آباد کا لانگ مارچ کیوں ناکام ہو۔ا چئیرمین تحریک انصاف اپنی حکمت عملی کے تحت اسلام آباد کی بقول انکے ستائیس کلو میٹر کی حکومت کو گھیراؤ کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئے، آخر خالی ہونے والی بیس سیٹوں پر چئیرمین تحریک انصاف کو خود امیدوار کیوں بننا پڑا کیا، یہ خدشہ موجود تھا کہ ان کی جگہ کوئی اور امیدوار ہوا تو کامیابی یقینی نہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ عوام کو انکی ٹیم پر کوئی اعتماد نہیں تھااور یہ حقیقت چئیرمین پی ٹی آئی کے علم میں تھی ،نؤ مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے والے افراد کے بیانات کو جھوٹا بھی مان لیا جائے چئیرمین تحریک انصاف کے اس معاملے پر اپنے بدلتے بیانئے نے حقیقت عیاں کردی ہے کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد یکے بعد دیگرے انکی حکمت عملیوں کی ناکامی نے انہیں ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا تھا جہاں وہ اداروں اور عوام کے تصادم کے خواہاں تھے تاہم خوش قسمتی سے نومئی کو بھی انہیں کامیابی نہیں ملی جسکے بعد انکے اس دن کے حوالے سے بیانیے بدلتے رہے۔ ابتداء میں نومئی کے واقعات کا دفاع اور پھر مذمت اسکا ثبوت ہیں۔ اب پھر سوال یہ ہے کہ کیا آج پاکستان تحریک انصاف اپنی مقبولیت کی معراج پر ہے تواسکا جواب سادہ سا ہے جتنی بھی مقبول ہے تن تنہا کلین سویپ نہیں کرسکتی کیونکہ انیس اکتوبر تک پاکستانی سیاسی میدان میں اس سوال کی گونج موجود رہی کہ میاں نواز شریف پاکستان آرہے ہیں یا نہیں اور اگر آرہے ہیں تو کیا وہ پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی کے مقبولیت کے گراف کا مقابلہ کرسکیں گے۔ اکیس اکتوبر کو مینار پاکستان کے جلسے میں میاں محمد نواز شریف نے ایک کامیاب انٹری دی ناقدین کچھ بھی کہیں لیکن یہ جلسہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اب بھی انتخابات کا اعلان جب کبھی بھی ہوا کسی سیاسی جماعت یا پاکستان تحریک انصاف کو لینڈ سلائیڈ وکٹری نہیں ملنی یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ انتخابات کا انعقاد سوشل میڈیا اور ٹویٹر یا یو ٹیوب پر نہیں ہوگا چاہے سوشل میڈیا مہم کتنی ہی کامیاب کیوں نہ ہو، اسکا اثر جب دو ہزار اٹھارہ میں انتخابات پر نہیں پڑا تو اب بھی نہیں پڑیگا کیونکہ سوشل میڈیا پر موجود مقبولیت اور انتخابی سیاست کے حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔یہ دو ہزار اٹھارہ میں ثابت ہوچکا ہے جب پی ٹی آئی اندرون سندھ اور بلوچستان میں خاطر خواہ کامیابی نہیں سمیت سکی پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے آزاد امیدواروں کو علیم خان اور جہانگیر ترین نے منایا مرکز میں حکومت کے قیام کیلئے بی اے پی ایم کیو ایم یہاں تک کہ بی این پی مینگل کو بھی منانا پڑا تب جاکر حکومت قائم ہوئی اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا کی مدد سے کیمپین لانچ کرکے انتخابی سیاست پر اثر ڈال سکتی ہے تو اسکا جواب نفی میں ہے لیکن پی ٹی آئی سمجھتی ہے جیسے ایک بین الاقوامی بے روزگار زلمے خلیل زاد انکے امریکی سازش کے بیانیئے میں مددگار تھے ویسے ہی ایک سیاستدان محمد علی درانی کی مدد سے وہ ایک ایسا ماحول ترتیب دے گی جس سے انہیں عوام میں یہ رائے عامہ بنانے میں مدد ملے گی کہ اسٹیبلشمنٹ نے نو مئی کے واقعات کو بھلا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور کسی بھی وقت محمد علی درانی اور صدر عارف علوی کی مدد سے پی ٹی آئی کم بیک کریگی تاکہ کسی طرح انتخابات تک ووٹ بینک کو قابو کرکے رکھے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔اسلئے صدر عارف علوی ہوں یا محمد علی درانی وہ پی ٹی آئی قیادت کو صرف اتنی سہولت کاری کرسکتے ہیں کہ مفاہمت بیانات کے ذریعے پی ٹی آئی کے کارکنان کو تسلیاں دے سکتے ہیں ایسی کسی مفاہمت کیلئے اسٹیبلشمنٹ تیار نظر نہیں آتی ہے۔ (جاری ہے)