سیاست نے اپنی اور خالص اپنی ضروریات کے لیے میثاق جمہوریت کیا تھا۔ اس کی حاجت انہی کو تھی جو کشمکش اقتدار میں حریف تھے۔ سماج کو اب ایک اور میثاق کی ضرورت ہے ۔ایک ایسے میثاق کی جس میں بنیادی اخلاقیات کے باب میں کوئی اتفاق رائے وضع کیا جائے۔ سوال یہ ہے کیا اہل سیاست میثاق اخلاقیات کر پائیں گے؟ اس سوال کا جو بھی جواب ہو حقیقت یہ ہے کہ سیاست دان بہت تیزی سے نا معتبر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ سیاست کی طاقت اصل میں اخلاقی طاقت ہے۔ یہ آئینی موشگافیاں نہیں ہیں جو سیاست کو مضبوط بناتی ہیں ، یہ اہل سیاست کا رومان اور کردار ہے جو انہیں طاقت عطا کرتا ہے۔ اسی رومان کا دوسرا نام عصبیت ہے۔ یہ عصبیت راتوں رات نہیں بن جاتی۔ اس کے پیچھے عشروں کی محنت ہوتی ہے ۔ حقیقت جو بھی ہو عمومی تاثر اخلاقی قوت کا ہی ہوتا ہے جو اس عصبیت میں ڈھل جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کا لیڈر بہت اچھا ہے اور اس نے اسی کو ووٹ دینا ہے تو یہ تاثر ہی اس لیڈر کی اخلاقی قوت ہوتا ہے۔ حقیقت میں وہ لیڈر بھلے اس سے برعکس کردار کا حامل کیوں نہ ہو، اس کا تاثر اس کے کارکنان میں اخلاقی قوت کا حامل ہو گا تو رومان اور عصبیت قائم رہیں گے ورنہ سب خاک ہو جائے گا۔ یہ رومان اور یہ وابستگی اس وقت خطرے میں ہے۔ کردار کشی کے طوفان میں ساری خوش گمانیاں غارت ہو رہی ہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اخلاقی بحران لوگوں کے وجود سے لپٹتا ہے تو وہ ایسے بے نیاز ہو جاتے ہیں جیسے ہوا ہی کچھ نہیں۔ ایک سابق گورنر کی ایک مبینہ ویڈیو سامنے آئی تو اس کی وضاحت دینے یا وضاحت لینے اور معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بجائے ا س کے منصب میں ترقی ہو گئی اور اسے پارٹی قیادت نے مشیر کا درجہ عطا فرما دیا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے عوام کو کیا پیغام گیا اور سیاست کا اخلاقی وجود کتنا متاثر ہوا؟ کبھی آڈیوز سامنے آتی ہیں ، کبھی ویڈیو ز، کبھی جائز اور جانائز اولاد کے معاملات عدالتوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ سیاست کے لیے اتنا تباہ کن ہے کہ کسی کو اندازہ نہیں اور سب اسے غیر سنجیدگی سے لے رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ سیاست یہاں اب لمحہ لمحہ نامعتبر ہو رہی ہے۔ اس بے توقیری کا انجام کیا ہو گا ، ابھی تو کوئی اس پر غور نہیں کر رہا لیکن مجھے ڈر ہے سیاست اس جوہڑ میں ڈوب نہ جائے۔ اخلاقیات سے ایسی خوفناک بے نیازی کے بہر حال اپنے نتائج ہوتے ہیں۔ معاشرہ نیم خواندہ سہی لیکن معاشرے کی مجموعی اخلاقیات کو آخر کب تک چیلنج کیا جاتا رہے گا اور وہ برداشت کرتا جائے گا۔ ایک وقت آئے گا سماج یہ سب کچھ اگل دے گا۔ اخلاقی بحران میں لپٹے سیکنڈلز پر یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ یہ نجی زندگی کے معاملات ہیں اور ان پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ بہر حال نجی زندگی کا احترام ہونا چاہیے اور غیر اخلاقی معاملات کا ابلاغ نہیں ہنا چاہیے ۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دووسرا رخ یہ ہے کہ قیادت کی نجی زندگی کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔ کیونکہ قیادت کی زندگی کا ہر پہلو عوام الناس پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ ایک عام آدمی اگر کوئی غلط کرتا ہے تو اس کے نتائج اتنے سنگین نہیں ہوتے جتنے قیادت کی کسی غلطی کے ہوتے ہیں۔ عام آدمی قیادت سے متاثر ہے ، وہ اس سے سیکھتا ہے ، لاشعوری طور پر اس کی تقلید کرتا ہے ، اس کا ایک رومان ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں یہی اخلاقی پیمانہ ہے کہ قیادت کی نجی زندگی کا استثناء عام آدمی کوو دیے گئے استثناء سے کم ہے ۔ یعنی آپ قیادت کے دعویدار ہیں تو آپ کو سماج کی عمومی اخلاقیات سے فروتر کوئی کام نہیں کرنا چاہیے ۔ عام آدمی جھوٹ بولے گا تو نا مناسب بات ہے لیکن قیادت جھوٹ بولے گی تو یہ سنگین معاملہ ہوجائے گا ۔ قیادت کے لیے اگر اخلاقی وجود کا احترام ضروری نہ ہوتا تو واٹر گیٹ سیکنڈل سے امریکی سیاست میں طوفان نہ آتا نہ ہی کلنٹن ایک ذاتی نوعیت کے سیکنڈل کی زد میں آتے۔ یہی اہتمام پاکستان کے دستور میں بھی موجود ہے ۔ آئین پاکستان میں یہ اہتمام موجود ہے کہ اراکین پارلیمان کے لیے قائم کردہ اخلاقی معیار عام آدمی کے معیار سے تھوڑا مختلف ہے ۔ یعنی ایسا تو نہیں کہ عام آدمی کے لیے اخلاقی اصول ساقط ہو جاتے ہیں اور ان کا اطلاق صرف اراکین پارلیمان پر ہوتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی رکن پارلیمان بننا چاہتا ہے تو اس کے لیے ایک الگ سے اخلاقی چھلنی موجود ہے۔ اس چھلنی سے گزرے گا تو رکن پارلیمان بنے گا ورنہ نا اہل ہو جائے گا۔ ٓگویا آئین میں یہ اصول طے کر دیا گیا ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں جن پر عام شہری سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی لیکن اگر کوئی آدمی چاہے کہ وہ رکن پارلیمان بن جائے تو اس کا دامن ان چیزوں سے آلودہ نہیں ہونا چاہیے۔یہ اضافی اہتمام بتا رہا ہے کہ جو آدمی قیادت کا دعویدار ہوگا اس کے لیے اخلاقی اصول دوسروں کی نسبت زیادہ سخت ہوں گے۔ اگر وہ ان اصولوں کی پاسداری نہیں کر سکتا تو گھر میں بیٹھے ۔ لیکن اگر اسے قوم کی قیادت بھی کرنی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ دستور پاکستان کے مطابق ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہے۔جب ریاست کا مملکتی مذہب اسلام ہے تو اس کی قیادت کے کسی دعویدار کو کم از کم ان چند بنیادی اصولوں پر پورا اترنا ہو گا جو اہلیت کے باب میں خود آئین میں وضع کر دیے گئے ۔ ان اصولوں میں سے ایک اصول آئین کے آرٹیکل 62 ( ون) ڈی میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ : ایسا آدمی اچھے کردار کا مالک ہونا چاہیے اور اس کی عمومی شہرت اسلامی تعلیمات سے انحراف کی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ غور کریں اچھا کردار اور عمومی شہرت کیا ہے۔ یہ وہ اضافی اخلاقی پابندیاں ہیں جو قیادت کے منصب کے ساتھ جڑی ہیں۔ عمومی شہرت کی بنیاد پر کسی عام آدمی پر کوئی گرفت نہیں ہو گی۔ نہ ہی ملک کے ہر شہری سے شہریت کے باب میں اچھے کردار کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کردار جیسا بھی ہو اور عمومی شہرت جو بھی ہو جب تک ایک عام شہری ملک کا قانون پامال نہیں کرے گا اس پر کوئی گرفت نہیں ہو گی۔ لیکن یہی عام شہری جب رکن پارلیمان بننا چاہے گا تواگر اس کا کردار اور عمومی شہرت ٹھیک نہیں ہے تو اسے رکنیت سے نا اہل قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن اگر سیاسی قیادت اپنے اخلاقی وجود سے یوں بے نیاز ہو جائے گی کہ اپنے طرز عمل اور طرز گفتگو میں اضافی تو کیا وہ عمومی اخلاقیات بھی نظر انداز کر دے گی تو اس کا انجام المیے سے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔