کچھ تحریریں ایک قرض کی طرح ہوتی ہیں اور ان کو ادا کیے بغیر اپ آگے نہیں جا سکتے۔تاثیر مصطفی صاحب کو یاد کرتے ہوئے چند سطریں تحریر کرنا بھی شاید ایک ایسا ہی قرض ہے جو مجھے ادا کرنا ہے۔اخبار نویس جو ساری زندگی خبریں بناتا رہتا ہے، مشاہیر کے انٹرویوز کرتا ہے ان کی کامیابی کی کہانیاں شائع کرتا ہے ،مگر خود اس کی اپنی زندگی خبر کی اس لائم لائٹ سے دور رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اپنا فرض ادا کرتے کرتے اس دار فانی سے گزر جاتا ہے۔ پھر ایک کالمی یا دو کالمی خبر کا حقدار ٹھہرتا ہے۔کالم کے اس صفحات پر میں اکثر۔ جانے والوں کو یاد کرتی ہوں ،یہ ان کا ایک حق ہے ہم پر ہمیں وہ ادا کرنا چاہیے۔ چار دن پہلے فیس بک سے تاثیر مصطفی صاحب کی اچانک وفات کی خبر ملی مجھ سمیت جو بھی تاثیر صاحب کو جانتا تھا ان کے دل اس اچانک رخصت پر بے حد رنجیدہ ہوئے ان کی اچانک رحلت سے دکھ سے بھر گیا۔یادوں کے کئی دریچے کھلے اور تہذیب اور شائستگی میں ڈھلے ہوئے مسکراتے تاثیر مصطفی صاحب یاد آئے۔ میرا پہلا تعارف ان سے روزنامہ جنگ میں ہوا تھا۔وہ نیوز روم میں سینئر ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔انتہائی شائستہ انسان چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی تھی اور ایسے لوگ جن سے بات کر کے آپ کبھی بھی ان سی کیور محسوس نہیں کرتے۔ آغاز میں میں روزنامہ جنگ میں آئی تو وہ مجھے اکثر یہ کہتے تھے کہ آپ انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہے آپ کو چاہیے تھا آپ سی ایس ایس کریں۔میں اس بات کو بس ہنس کر ٹال دیتی کیونکہ سی ایس ایس کے آپشن کو میں نے گھر والوں کے ارادے اور خواہش باوجود چھوڑ دیا تھا ایسا لگتا تھا کہ گریڈوں میں بڑی ہوئی نوکری میں خوش نہیں رہ سکوں گی۔ اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس حوالے سے یہ بات کرتے ہیں لیکن آج اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جس فیلڈ میں آئے تھے اس وقت وہ زوال کی طرف جا رہی تھی۔ الیکٹرانک میڈیا شروع ہو چکا تھا اور پرنٹ میڈیا پر زوال کا سایہ پڑ چکا تھا وہ شاید حالات کیاسی رخ کو محسوس کر کے یہ بات کہتے تھے۔وہ اپنے وقت میں صحافت کے بڑے قابل طالب علم تھے جو گولڈ میڈل لے کر عملی صحافت میں آئے۔ جمیل چشتی صاحب نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ جب وہ روزنامہ جنگ میں آئے تو بہت دھوم مچی تھی کہ یہ وہ طالب علم ہے جس نے ایم اے صحافت میں گولڈ میڈل لیا ہے۔سننے والا اس سے مرعوب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا یوٹیوب سوشل میڈیا سے بہت پہلے کا زمانہ تھا، آج جس طرح تھوک کے حساب سے نمبر نہیں آتے۔وہ آغاز میں دوست انہیں تاثیر مصطفی گولڈ میڈلسٹ کے نام سے بھی پکارتے ۔انہوں نے مختلف اداروں اور میڈیا ہاؤسز کے ساتھ کام کیا وہ طویل عرصہ ماس کمیونیکیشن پڑھنے والے طالب علموں کو بھی پڑھاتے رہے۔ برسوں کے بعد ان سے پریس کلب کی ایک تقریب میں ملاقات ہوئی وہ بہت کمزور نظر آئے انہیں چلنے میں کچھ دشواری تھی سہارے کے لیے انہوں نے واکنگ اسٹک پکڑی ہوئی تھی ۔وہ اپنے پرانے والے امیج سے بالکل مختلف دکھائی دیئے۔ معلوم ہوا کہ وہ کافی بیمار رہے ہیں مگر اب دوبارہ سے اپنی صحافتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ان سے تفصیلی ملاقات اسی سال فروری میں ہوئی جب انہوں نے مجھے اپنے چینل پر سفر صحافت پروگرام میں انٹرویو کے لیے مدعو کیا۔میں عموماً انٹرویوز سے گریز کرتی ہوں لیکن جب تاثیر مصطفی صاحب نے کہا کہ میں آپ کا انٹرویو کروں گا تو میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔ پروگرام کے آغاز میں انہوں نے میرے لیے جن احساسات کا اظہار کیا وہ بہت قیمتی ہیں اور ان کی اعلی ظرف طبیعت کاعکاس ہیں کہ وہ اپنے جونیئرز کی کامیابیوں پر ان کو بھرپور سراہنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ ان سے آخری بات چند ماہ پہلے ہوئی جب انہوں نے خورشید رضوی صاحب پر میرا ایک کالم پڑھا اور کہا کہ آپ خورشید رضوی صاحب کے ساتھ ایک پروگرام ہمارے چینل پر کریں ، میں نے حامی بھر لی، لیکن خورشید رضوی صاحب ان دنوں ملک سے باہر تھے اور پھر وہی ہوا جو عموما ہمارے ارادوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ممتاز صحافی سلمان غنی صاحب ان کے آغاز کے دور کے ساتھی ہیں اور انہیں یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں "لاہور کی صحافت میں رؤف طاہر کے بعد تاثیر مصطفی ایسے صحافی تھے جنہوں نے اپنے پیشہ ورانہ صحافت کو اپنے ذاتی مفادات ،معاشی اور معاشرتی آلودگیوں سے پاک رکھا۔ یہ الگ بات ہے زندگی مشکل گزاری لیکن اپنے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا نظریات کو بدلتے ہیں۔ اپنے نظریات کے ساتھ اس کمٹمنٹ کے باوجود ان کے اندر ایک قابل تعریف شائستگی اور تہذیب موجود تھی وہ ہر ایک سے بہت خوشگوار انداز میں محبت سے مسکرا کر بات کرتے۔ رؤف طاہر صاحب کے بعد لاہور کی صحافت میں سے تاثیر مصطفی کا چلے جانا نظریاتی صحافت کا بہت بڑا نقصان ہے ۔تاثیر مصطفی نے تمام عمر نیک نامی کمائی۔ پریس کلب کے الیکشن کی سیاست میں بھی ان کا بڑی عزت تھی۔میڈیا میں ان کے ہزاروں طالب علم کام کررہے ہیں جن کی انہوں نے نظریاتی تربیت کی۔ اور خود اپنے قول و فعل کے تضاد سے پاک کردار کے ذریعے نوجوان نسل کو متاثر کیا۔پرنٹ میڈیا کی صحافت کو ایک خاص معیار تک پہنچانے والے تاثیر مصطفی صاحب جیسے قابل لوگ دنیا کے سٹیج پر اپنا کردار ادا کر کے نظروں سے اوجھل ہورہے ہیں۔تاثیر صاحب صحافت میں اپنا بہترین کردار ادا کر کے چلے گئے وہ اپنے رب کے حضور یقینا سرخرو دل کے ساتھ پیش ہوں گے۔تاثیر مصطفی صاحب صحافت میں، پیشہ ورانہ قابلیت دیانت اور اختلاف میں بھی تہذیب اور شائستگی کی علامت تھے۔الیکٹرانک میڈیا سے ہٹ کر سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر" صحافت" اپنی شکل بدل کر جو ہڑبونگ مچا رہی ہے اس تناظر میں یہ خوبیاں کم یاب تو کیا نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔آنے والے وقتوں میں نہ جانے یہ عجلت زدہ ڈیجیٹلائز صحافت کیا سے کیا ہو جائے مگر سچ تو یہ ہے کہ تیزی سے بدلتے اس منظر نامے میں بھی وہ لوگ انہیں نہیں بھول سکتے جو انہیں جانتے تھے۔کیونکہ اس دشت صحافت میں تاثیر مصطفی ایک ہی تھا۔ ٭٭٭٭٭