یہ آج سے کوئی پینتیس چالیس سال پہلے کی بات ہے، پنجاب کے جنوب میں ایک پسماندہ چھوٹے شہر احمد پورشرقیہ کا ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکا اپنی دھن میں اخبار، رسالے، کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔یہی جنون کہ کسی طرح علم کے خزانوں تک رسائی ہو،پڑھنے کا ذوق بن جائے، لکھنے کا ڈھنگ آ جائے۔ شہر کا ماحول علم دشمن۔سکول کالج میں ایک بھی استاد ایسا نہ ملا جو حوصلہ افزائی کرتا یا آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا۔ والدین کو یہ فکر کہ ان کا سب سے چھوٹا بچہ رسالے، ڈائجسٹوں کو پڑھ کر اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ ہم عمر لڑکے بالے سب اپنے اپنے شوق آنکھوں میں سجائے ہوئے۔ نائب تحصیل دار یا ایکسائز انسپکٹر بننے کا خیال تو کوئی ملک سے باہر جانے کی دھن میں، کسی کے تخیل کی انتہا شہر میں اچھی سی دکان کھول لینا۔ زمانہ وہ جب پرانی تہذیب آنکھیں موند رہی تھی، نئی تہذیب پر کمرشل ازم کا غلبہ۔ ادھر کنزیومرازم کا عفریت بھاڑ سا منہ کھولے سب کچھ ہڑپ کرنے لپکا آئے۔ ایسے میں کوئی طالب علم اگر لکھنے پڑھنے کی بات کرے، کتابوں کی فضیلت گنوائے اور صحافی یا لکھاری بننے کا خواب دیکھے تو اس کی عقل پر شک ہونا فطری امر۔ اس گول مول سے شرمیلے لڑکے کو مگر کتابوںمیں چھپے حروف سے محبت تھی، اہل دانش اور اہل قلم اس کے رول ماڈل تھے۔ ایک دن شہر کی لائبریری میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا،وہاں گھومتے پھرتے ایک عزیز نے دیکھا تو چونک کر پوچھا ، میاں کیا بننے کا ارادہ ہے؟ زندگی میں کوئی خواب بھی ہے؟ لڑکے نے آنکھ اٹھا کر دیکھا اور دھیرے سے بولا، ’’میں صحافی بننا چاہتا ہوں، کالم لکھنا چاہتا ہوں، میری خواہش ہے کہ بطور انٹلکچوئل ، بطور کالمسٹ میری شناخت بنے، اس لائبریری میں میری کئی کتابیں رکھی ہوں۔نوجوان انہیں پڑھیں، کچھ سیکھیں، حاصل کریں اور ان کی زندگیاں بدل جائیں۔ ‘‘ وہ عزیزشائد دل ہی دل میں مسکرایا ہو، مگر کچھ کہے بغیر خاموشی سے اٹھ گیا۔لڑکے نے پھر سے اخبار پڑھنا شروع کر دیا۔ احمد پورشرقیہ بہاولپور ضلع کی ایک قدیمی تحصیل ہے،اس بدقسمت شہر کو نوابان بہاولپور کا مسکن رہنے کا اتفاق ہوا۔ بہاولپورکے آخری نواب صادق محمد خان خامس بھلے آدمی تھے، علم دوست، کشادہ دل، کشادہ دست۔ ان کی اولاد اور آگے ان کی اولادیں مجموعی طور پر نالائق اور نااہل ثابت ہوئیں۔بڑے نواب کے صدقے وہ سیاست پر چھائے رہے۔ کئی الیکشن جیتے۔ آج کل بھی ایک شہزادہ رکن صوبائی اسمبلی ہے،ان سب نے مگر احمد پورشہر کو ہمیشہ کھنڈر بنائے رکھا۔ ٹوٹی سڑکیں،بدترین سیوریج، بدحال عوام۔شہر میں کوئی ڈھنگ کا ادارہ بنایا نہ ہی کوئی اچھی علمی، ادبی روایت پنپ پائی۔ اوسط درجے کے سرکاری تعلیمی ادارے، تباہ حال سرکاری ہسپتال ، البتہ ایک مناسب سائز کی لائبریری نجانے کیسے میونسپل کارپوریشن کے زیراہتمام بنی اور پھر کسی نہ کسی طرح چلتی رہی۔ جس شہزادے کا اوپر ذکر آیا، ایک بار اسے لائبریری کی تقریب میں مدعو کیا گیا، معززین شہر نے درخواست کی کہ اپنے فنڈ میں سے کچھ رقم لائبریری کے لئے نئی کتابیں خریدنے کی غرض سے دے۔ نالائق عباسی شہزادے نے برہمی سے دیکھا اورنخوت سے بولا، لائبریری سے مجھے کتنے ووٹ ملنے ہیں؟ اگر کسی محلے کی گلی پکی کرا دوں تو پچاس سو ووٹ تو مل ہی جائیں گے۔ جس لڑکے کا ذکر ہے، وہ اسی شہر، اسی ماحول اور انہی فضائوں کا پروردہ تھا۔ جہاں اس کے سامنے سکول ، کالج میں کوئی علمی روایت تھی نہ کوئی معروف ادبی بیٹھک،نہ ایسا مینٹور جو رہنمائی کر سکے۔ اپنی سمجھ کے مطابق جو کتاب ہاتھ آئی، اسے چاٹ ڈالا۔اخبار کے کالم میں کسی کتاب کاتذکرہ آیا تو اسے کھوجنے کی جستجو کی، مل گئی تو پڑھ لی، نہ مل سکی تو ناتمام آرزوں کی فہرست میں اس کا نام بھی رقم کر دیا۔ تب کوئی نجومی، دست شناس، قسمت جاننے کا دعوے دار بتاتا کہ یہ لڑکا جو اردو میڈیم سکول میں پڑھ رہا ہے، جس کی پرائمری اور مڈل کلاسز ٹاٹ پر بیٹھ کر پاس کی گئیں، جس کا صحافت میں کوئی واقف کار یا جاننے والا بھی نہیں، جس نے کبھی لاہور خواب میں بھی نہیں دیکھا۔ ایک روز یہی لڑکا لاہور جا کر صحافت کا آغاز کرے گا، تین عشروں کی صحافت میں اردوکے تین جدید اور مقبول روزناموںکا بانی میگزین انچارج/ میگزین ایڈیٹر بنے گا۔ ہفتے میں تین چار کالم لکھے گا اور اس کے کالموں، بلاگز کی کئی کتابیں شائع ہوں گی۔ خبر اگر سنائی جاتی کہ یہ شرمیلا نوعمر جو آج تک سکو ل کے سٹیج پر نہیں چڑھا، کبھی اسمبلی میں تقریر تک نہیں کی، ایک دن یہ یونیورسٹیوں میں ایم اے کے طلبہ کو پڑھائے گا، پبلک تقریبات میں تقریریں کرے گا،ریڈیو پاکستان پرکئی سال تک لائیو پروگرام، مختلف ٹی وی چینلز پر بھی بولنے کے مواقع ملیں گے۔ تب یہ باتیں اگربلدیہ لائبریری میں بیٹھے ہوئے کھوئی کھوئی آنکھوں والے اس لڑکے کو بتائی جاتیں یاوہاں بیٹھے لوگ بھی سنتے تو سب بے یقینی سے مسکرا تے۔ قدرت نے یہ سب مگر سچ ثابت کر دکھایا۔اس لڑکے کے یہ تمام خواب پورے ہوئے۔ یہ کتاب ’’وازوان‘‘اسی احمد پوری لڑکے کے خواب کی ایک کڑی ہے، ایک پڑائو، ایک سنگ میل۔ یہ میری کہانی اور’’وازوان‘‘ میری تیسری کتاب ہے۔ پہلی کتاب ’’زنگار‘‘ 2017ء میں دوست پبلی کیشنز اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ دو سال بعد دوسری کتاب’’ زنگار نامہ ‘‘قاسم علی شاہ فائونڈیشن/نئی سوچ پبلشرز سے شائع ہوئی ۔ تب کورونا کی آمد ہوئی اور کتاب کی کئی تقریبات پزیرائی نہ ہو پائیں، بعد میں برادرم سیدقاسم علی شاہ نے خود دلچسپی لے کر کرائی۔۔ دو سال بعد جب کورونا کی آفت ٹلی تو ’’زنگار‘‘ کا دوسرا ایڈیشن بک کارنر ، جہلم سے شائع ہوا۔ بک کارنر کے گگن شاہد، امر شاہد نے کیا خوبصورت کتاب شائع کی، دیکھ کر ہی دل خوش ہوجاتا ہے۔ نئی کتاب بھی انہوں نے شائع کی ۔ ’’وازوان‘‘نام رکھنے کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ نام مجھے اپنے صوتی تاثر سے مترنم ، دلکش اور منفرد لگا، دوسرا ’’وازوان‘‘دراصل مشہور کشمیری شاہی دسترخوان ہے ، جس میں طرح طرح کے مختلف ذائقوں والی درجنوں ڈشز شامل کی جاتی ہیں۔ وازوان اپنی حقیقی شکل میں راجوں، مہاراجوں کے دور میں پیش کیا جاتا تھا، تیس پینتیس ڈشز بنانا جن میں گوشت، چاول ، سبزیوں کا بہترین امتزاج ہو، یہ ویسے ہی غیر معمولی ہنر کا متقاضی تھا۔ میری اس تیسری کتاب میں بھی تنوع زیادہ ہے۔ اس میں وازوان کی طرح مختلف ذائقوں کا امتزاج ہے۔ میری پہلی دونوں کتابوں میں بھی خاصی ورائٹی ہے، مگر ’’وازوان ‘‘میں کینوس زیادہ وسیع ہے، اس میں موٹیویشنل کالموں، عمل خیر، زندگی کے سبق، کتابوں ، عربی ادب وغیرہ کے علاوہ خاص طور سے عسکریت پسندی /گوریلا تنظیموں پر لکھے چند منتخب تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں، ان میں بہت سے ایسے بلاگز بھی ہیں جو اخبار میں نہیں چھپے اور ان کا متن فیس بک پر بھی نہیں لگایا گیا۔ اس میں شاہکار فلموں، بڑے ہدایت کاروں،فنکاروں پر بھی ایک خصوصی سیریزہے۔ اس میں’’ نقطہ نظر ‘‘کے عنوان سے چند ایک ایسے کالم شامل کئے گئے جو پہلے ارادہ تھا کہ نظریاتی حوالے سے اپنی تحریروں پر مشتمل الگ کتاب میں شامل کروں گا۔ یوں میرے نزدیک ایک بھرپور کمبی نیشن بن گیا۔ اپنی پہلی کتاب زنگار کا انتساب اپنے والدسردار ہاشم خان اور اپنے روحانی باپ ، مرشد قبلہ سرفراز شاہ صاحب کے نام کیا تھا۔ دوسری کتاب زنگار نامہ کا انتساب والدہ محترمہ کے نام کیا تھا۔ اس تیسری کتاب ’’وازوان ‘‘میری اہلیہ سعدیہ مسعود کے نام ہے۔میں اتنی یکسوئی سے کبھی نہ لکھنے پڑھنے کا کام کر سکتا، اگر اہلیہ غیر مشروط سپورٹ اور بھرپور سپیس نہ دیتیں۔چند سطری انتساب ان کا قرض نہیں اتار سکتا۔ کل یعنی یکم مارچ، بدھ سے ایکسپو سنٹر لاہور میں پانچ روزہ سالانہ کتاب میلہ شروع ہو رہا ہے۔ یہ ہر سال شہر میں ہونے والی کتابوں کی سب سے بڑی ایکٹوٹی ہے۔لاکھوں لوگ وزٹ کرتے اور کروڑوں کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ ہر سال میں اس کتاب میلہ پر کالم لکھتا ہوں۔ اس سال نئی بات یہ ہے کہ میری تازہ کتاب ’’وازوان‘‘شائع ہوگئی ہے اور بک کارنر جہلم کے سٹال سے لی جا سکتی ہے۔ کوشش ہوگی کہ پانچ دن شام چھ سے آٹھ بجے ایکسپوسنٹر کا چکر لگے۔ کتابیں میرے لئے آکسیجن کا کام دیتی ہیں، ہر سال ہزاروں روپے کی نئی کتابیں کتاب میلہ سے خریدتا ہے، دل کبھی نہیں بھرا، ہمیشہ مزید کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کتابوں کا اب زمانہ نہیں رہا، وہ ان پانچوں دنوں میں اور خاص طور سے ویک اینڈ پر ایکسپوسنٹر کا چکر لگا کر دیکھیں۔ صبح دس سے رات ساڑھے نوبجے تک وقت ہے۔