یوں تو دنیا میں ضمیر جاگنے کے واقعات کم ہی ملتے ہیں کیونکہ اگر ضمیر زندہ ہو تو دنیا میں قتل و غارت، جابرانہ تسلط، ظلم و ستم، حق تلفی ناانصافی کا ایک بھی واقعہ رونما نہ ہو، دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان آپس میں بھائی چارے کی طرح رہ کر فسادات، تنازعات میں الجھ کر اپنے مالی وسائل ضائع کرنے کی بجائے وہی سرمایہ کثیر اپنے اپنے ملک کے عوام کی بھلائی خیر خوائی کے لیے خرچ کر کے عزت و توقیر سمیٹ سکتے ہیں لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے جو جتنا بڑا طاقت ور ہے وہ کمزور کو دبا کر رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں پوری دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے، اس بنا پر دنیا کے بکھیڑے اور تصادم کی جھلک ہر آدمی اپنے اپنے ملک میں بیٹھ کر دیکھ رہا ہے، جس پر تبصرے اور کمنٹس سوشل میڈیا کے ذریعے بھی زبان زد عام ہوتے ہیں، دنیا کے مسائل مشکلات و تنازعات حل کرنے کے لیے اور امن و امان کے قیام کے لئے آج سے پون صدی قبل اقوام متحدہ کا ادارہ معرض وجود میں آیا لیکن اقوام متحدہ کے اربابِ اختیار کا ضمیر سویا ہوا ہونے، اور جانبدارانہ رویے کی وجہ سے پوری دنیا کے اسلامی ممالک کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر بھی مجرمانہ خاموشی سے قتل عام اور نسل کشی ہو رہی ہے لیکن کسی کا ضمیر نہیں جاگ رہا ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے عوام حق خود ارادیت سے نہ صرف محروم چلے آ رہے ہیں بلکہ دن بدن بھارتی بربریت و سفاکیت کا شکار ہو رہے ہیں۔ عراق شام اور افغانستان کی تباہی و بربادی بھی کوئی خفیہ داستان نہیں رہی، ناجائز ریاست اسرائیل کی فلسطینی ریاست کی شناخت ختم کرنے کی پالیسی گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ کا چہتا اسرائیل ہے ۔اس امریکی لاڈلے نے 7 اکتوبر 2023 سے لیکر آج تک غزہ فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے ،ہزاروں افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے ،عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے، انسانیت سوز مظالم کی سیاہ تاریخ بنا دی ہے لیکن ابھی تک اسرائیل فلسطین کے عوام کو کچلنے کی پالیسی پر گامزن ہے، امریکہ کی شہہ پر اس کے مظالم جاری ہیں، امریکی فضائیہ اسرائیل کی ہر طرح سے مدد کر رہی ہے گزشتہ دنوں ایک ویڈیو ویرل ہوئی ہے، جس میں ایک امریکی فوجی کا ضمیر جاگ گیا اور جب ضمیر جاگا تو وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا کہ یہ ظلم کیوں کر رہے ہو ،اس کا تمہیں ایک دن حساب دینا پڑے گا ،یہ امریکی فوجی جب بے بس ہو گیا تو اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ مزید معصوم بچوں اور خواتین کا خون نہیں کرے گا پھر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ دنیا کے لیے مثال بنے گا۔ پھر بقول شاعر وہ کہے گا کہ جب دنیا میں صداوں کا قحط تھا تب میں ہی بولا تھا، اسرائیل کے ظلم و بربریت سفاکیت میں پیش پیش امریکی فضائیہ کے ایک فعال ڈیوٹی آفیسر نے امریکہ واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے اپنے آپ پر پیٹرول چھڑک کر سر پر ٹوپی لگا کر پتلوں کی جیب سے لیٹر نکال کر خود کو آگ لگا لی، آگ کے بلند شعلوں میں بھی اس کی آواز دینا کے ضمیر کو چیخ چیخ کر جھنجھوڑ کر کہہ رہی تھی کہ میں اب فلسطین( غزہ) میں مزید نسل کشی میں ملوث نہیں رہوں گا۔" امریکی فضائیہ کے اس جرات مند انصاف پسند اور روشن ضمیر نے آگ میں جلتے ہوئے بھی بلند آواز سے ،وہ بار بار "آزاد فلسطین" کا نعرہ لگاتا رہا، 25 سال کا یہ نوجوان امریکی فوجی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا لیکن دنیا میں ایک تاریخ بنا گیا کہ ظلم ظلم ہے اور پھر یہ ظلم سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس امریکی فوجی نے غزہ میں اسرائیلی فوج کی حمایت میں نجانے کتنے معصوم بچوں کو اور بے گناہ عورتوں کو موت کے منہ میں دھکیلا ہو گا۔ اس نوجوان نے امریکی فوج کی کھل کر اسرائیلی حمایت کو بھی دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا کہ 7 اکتوبر سے اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم میں ملوث نہیں بلکہ یہ جنگ امریکہ لڑ رہا ہے، امریکہ تو جنگ بندی کے حق میں اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی تین قرار دادوں کو تین دفعہ ویٹو کر چکا ہے۔ اس کا بھانڈا بھی اس زندہ ضمیر امریکی فوجی نے بیچ چوراہے میں پھوڑ دیا ہے، یہ امریکی فوجی تو اب دنیا میں نہیں رہا لیکن اب جب تک دنیا قائم ہے، یہ زندہ رہے گا۔ زندہ ضمیر لوگ اس کی خود سوزی کی وجوہات پر ماتم کرتے رہیں گے کہ بالآخر اس کو یہ کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی، شاید اس نے فلسطینی عوام کی نسل کشی نہ کرنے کے بارے میں اپنے ذمہ داران کو بھی بتایا ہو گا؟ احتجاج بھی کیا ہو گا کہ یہ ظلم ہے میں اس کا حصہ بنا لیکن مزید حصہ نہیں بننا چاہتا لیکن اس کی کسی نے بھی نہ سنی ہو گی، پھر اس نے اپنے ضمیر کی آواز پر ضمیر کی عدالت میں یہ عمل کرنے کی ٹھان لی، ہمیں افسوس ہے کہ ایک امریکی فوجی جو کہ ایک انسان تھا اپنے خاندان کی آنکھ کا تارا تھا، وہ جان سے گیا، اب بھی وقت ہے اس امریکی فوجی کی آواز کو امریکہ سنے اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو ممکن بنانے کے لیے اقدامات کرے، خدا کرے اسرائیل کے فوجیوں کا اسرائیل کے وزیر اعظم کا امریکی صدر کا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا ضمیر بھی جاگ جائے اور مظلوم کی فریاد پوری ہو۔