پاکستان ان بدقسمت ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کے اربابِ اختیار نے ایک ایک کر کے اپنے تمام ادارے ایسے تباہ کئے کہ پورا ملک اب ایک معاشرتی کھنڈر معلوم ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جب یہ ملک بنا تھا تو ہمیں اس طرح کی بربادی ورثے میں ملی تھی۔ انگریز ایک بدیسی حکمران اور استعماری قوت تھا۔ اس نے اپنے مفاد کے لئے برصغیر پاک و ہند پر قبضے کے بعد پہلے اس کے تمام ادارے ایک ایک کر کے تباہ کئے اور پھر ان کے ملبے پر اپنے لئے ایسے نئے ادارے قائم کئے جو اس کی حکومت کے استحکام کے لئے ضروری تھے۔ میسور کی فتح اور 4 مئی 1799ء کو ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد سے اس کا آغاز کر دیا گیا تھا، کیونکہ اب انگریز کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ہندوستان پر قبضے کے راستے میں آخری رکاوٹ اس نے عبور کر لی ہے۔ اس پر زیادہ سنجیدگی سے کام 1834ء سے شروع ہوا جب لارڈ میکالے (Lord Macaulay) کو وائسرائے کی سپریم کونسل کی حیثیت سے ہندوستان بھیجا گیا۔ وہ یہاں چار سال رہا اور اس نے فروری 1835ء کو اپنی بنیادی سفارشات مرتب کیں جو ایک ایسے تعلیمی نظام کا خاکہ پیش کرتی تھیں جس کی کوکھ سے برطانیہ کے اقتدار کی وفادار سول سروس، فوج، عدلیہ اور دیگر اداروں کے لئے افراد نے تعلیم حاصل کر کے نکلنا تھا۔ تقریباً پچیس سال کے عرصے میں جب یہ نسل تیار ہو کر نکلی تو انگریز نے ضابطۂ فوجداری، ضابطۂ دیوانی اور تعزیراتِ ہند جیسے لاتعداد قوانین نافذ کئے اور سول سروس، عدلیہ اور دیگر ذیلی محکموں کا ڈھانچہ کھڑا کر دیا جو جلد ہی مضبوط اداروں کی شکل میں ڈھل گیا۔ پاکستان کو ایک شاندار سول سروس، بہترین پولیس کا نظام اور انتہائی لائق اور ایماندار عدلیہ ورثے میں ملی۔ برطانیہ کا دیا ہوا عدالتی نظام اسسٹنٹ کمشنر اور تھانے کی سطح تک براہِ راست نگرانی کرتا تھا۔ تمام اسسٹنٹ کمشنر، سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوتے۔ ہر تھانے کی نگرانی کے لئے ایک مجسٹریٹ مقرر ہوتا اور ہائی کورٹ براہِ راست ان عدالتوں کی نگرانی کیا کرتی۔ متعلقہ چیف جسٹس باقاعدہ عدالتی کام دیکھنے کے لئے تفصیلی دورے کیا کرتا۔ ایسا آخری دورہ میری نوکری کے دوران 1996ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منور مرزا نے سبّی میں کیا، جہاں میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔ اسی دہائی میں ’’یورپی فیشن‘‘ اور 1973ء کے آئین کی ’’روح‘‘ کو باہم یکجا کر کے دیکھتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ نے عدلیہ اور انتظامی مجسٹریسی کے نظام کو علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور 1999ء میں پرویز مشرف کے قائم کردہ ناظمین سسٹم نے پورے نظام کی ڈیڑھ سو سالہ عمارت دھڑام سے گرا دی۔ مگر ہم نے اس سے بہت عرصہ پہلے ہی انگریز کے عطا کردہ عدالتی نظام کی جڑیں کھوکھلا کرنا شروع کر دی تھیں۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں جج مقرر کرنے کے تین طریقے تھے۔ وہ تجربہ کار افراد جو سول جج بھرتی ہوئے ہوتے اور پھر سیشن جج ہو کر اپنی پروموشن کے ذریعے ہائی کورٹ کے جج بن جاتے۔ سول سروس کے وہ افراد جو ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے پر ایک عرصہ گزارتے تو پھر انہیں اس بات کا حقِ انتخاب (Option) دیا جاتا کہ وہ اپنی سول سروس کی نوکری میں مزید وقت گزارنا چاہیں گے یا پھر عدلیہ کے پیشے کو اختیار کریں گے۔ یوں ایک کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی جو ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عرصہ گزار کر عدالتوں میں جج لگ جاتے۔ پاکستان کے لاتعداد ایسے جج جنہوں نے بہت نام کمایا وہ سول سروس سے آئے تھے جیسے جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس حمود الرحمن۔ جج بننے کا تیسرا طریقہ وکلاء سے عدلیہ میں آمد کا تھا۔ اوّل تو وکلاء اپنی آزادانہ پریکٹس چھوڑ کر اس شعبے میں آنا نہیں چاہتے تھے اور دوسرا وہ اپنی پریکٹس سے اتنا کما لیتے تھے کہ جج کی محدود تنخواہ میں گزارا کرنا ان کے لئے مشکل تھا۔ البتہ جو بھی اس لالچ کو بالائے طاق رکھ کر عدلیہ میں آتا اس کی عدالتی زندگی بے مثال ہوتی۔ آج یہ عدالتی عمارت صرف اور صرف وکلاء کی عدلیہ میں درآمد کے ستونوں پر کھڑی ہے۔ سیشن جج سے ترقی کر کے آنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور سول سروس سے عدلیہ میں تو گزشتہ چالیس سال سے کوئی بھی نہیں آیا۔ بات صرف وکلاء تک ہی محدود ہوتی اور انتخاب میں ویسی ہی ایمانداری برتی جاتی تو پاکستان کا نظامِ عدل اس تباہی سے بچ جاتا۔ لیکن پاکستان میں جو کوئی بھی برسرِاقتدار آیا، وہ سیاستدان تھا یا فوجی ڈکٹیٹر اس نے اپنے مخصوص وکلاء کو جج بنا کر عدلیہ پر اپنا قبضہ جمانے کی بھر پور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کا عدالتی نظام اپنی تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے دوچار ہے۔ پاکستان کی عدالتوں نے پہلا سیاسی فیصلہ سندھ ہائی کورٹ نے 1954ء میں کیا، جب گورنر جنرل غلام محمد نے قائد اعظم ؒ کی بنائی ہوئی دستور ساز اسمبلی توڑی تو اس کے خلاف سپیکر اسمبلی مولوی تمیزالدین نے وہاں درخواست دائر کی۔ غلام محمد ایک سابقہ بیوروکریٹ تھا اور اقتدار کی ساری قوت اپنے پاس مرکوز رکھنے کا خوگر تھا۔ اس کے لئے اسمبلی کی تین گستاخیاں ناقابلِ برداشت تھیں۔ پہلی یہ کہ سیاست دانوں پر کرپشن کا الزام لگا کر ان پر کارروائی کرنے والے قانون ’’پراوڈا‘‘ کا خاتمہ کر دیا گیا، دوسری یہ کہ تمام ہائی کورٹوں کو رِٹ کی سماعت کے اختیارات دے دیئے گئے اور تیسری یہ کہ گورنر جنرل سے ایسی حکومت کو برطرف کرنے کا اختیار چھین لیا گیا جسے اسمبلی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ اس وقت وزیر اعظم محمد علی بوگرہ تھا۔ اسے غلام محمد نے خود امریکہ میں سفارت کاری سے ہٹا کر وزیر اعظم بنوایا تھا، اس لئے غلام محمد کو اس پر بہت غصہ تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے ایسے قوانین منظور کرنے والی دستور ساز اسمبلی کو ہی ختم کر دیا، لیکن اس اسمبلی کو ختم کرنے سے پہلے اس نے سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ اس وقت سب سے اہم سیاست دان حسین شہید سہروردی تھے جن کو آج کل بہت ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ بیمار تھے اور سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورچ میں زیرِ علاج تھے۔ غلام محمد نے مشہور اخبار نویس اور صحافی زیڈ اے سلہری کو اپنا خاص ایلچی بنا کر بھیجا اور وہ سہروردی سے یہ بیان لینے میں کامیاب ہو گئے کہ ’’موجودہ دستور ساز اسمبلی اپنی نمائندہ حیثیت کھو چکی ہے اس لئے اسے توڑ کر نئے انتخاب کرائے جائیں‘‘۔ محمد علی بوگرہ اور آرمی چیف ایوب خان امریکی دورے پر تھے، دونوں کو فوراً واپس بلایا گیا۔ کراچی کے ایئر پورٹ پر دو جرنیلوں نے محمد علی بوگرہ کی بیوی کو دوسری گاڑی میں گھر جانے کے لئے کہا اور وزیر اعظم کو لے کر گورنر جنرل ہائوس روانہ ہو گئے۔ اس عرصے میں ایئر پورٹ پر موجود ڈائریکٹر انٹیلی جنس اس پوری کارروائی کی براہِ راست نگرانی کر رہا تھا۔ کارروائی کے دوران پورے شہر میں فوجی گشت کرتے رہے اور تمام سیاست دانوں کے گھروں کے ٹیلی فون کاٹ دیئے گئے۔ سپیکر اسمبلی مولوی تمیزالدین نے اسمبلی توڑنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کر رکھی تھی اور سارا دن اسمبلی کی لائبریری میں بیٹھا رہا کہ کہیں باہر نکلنے پر اسے گرفتار نہ کر لیا جائے۔ (جاری ہے) نوٹ: غوثیہ کالج مظفر گڑھ گذشتہ 12 سال سے یتیم اور نادار بچوں کو چوتھی سے ایم اے تک تعلیم فراہم کر رہا ہے۔ ان کے پرنسپل ڈاکٹر طارق صاحب سے رابطہ کر کے ان بچوں کی امداد کی جا سکتی ہے۔ نمبر 0300-3312052۔