میرے وطن میں سیاسی معاشی اور سماجی منظر نامے کی صورت بگڑتی چلی جارہی ہے۔ایک ہی ملک پر حکومت کرنے کے خواہشمند سیاستدان باہمی مخاصمت سے سماجی تانے بانے کا بھی بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ سیاستدان ایک دوسرے سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ مکالمے کی میز پر بیٹھنے کے روادار نہیں۔ان سیاستدانوں کے حواری سیاسی مخالفین کے خلاف بد زبانی اور فحش کلامی کے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔جبکہ عام آدمی کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے سفید پوش مفت آٹے کی خواہش میں جان سے جا رہا ہے۔روپے قدر میں کمی اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا جاتا ہے کہ ڈیفالٹ کی تلوار سر پر لٹکتی ہے۔ اہل اختیار دولت مند ٹیکس کے پیسے پر مراعات حاصل کرتے غریبوں کے لئے مفت آٹے کی تقسیم جیسی پالیسیاں بناتے ہیں جس میں غریب صرف ذلیل و خوار ہوتا ہے۔ ہم دنیا کے ساتھ آگے تو کیا بڑھتے ایک عجیب غفلت کے عالم میں ان رہبروں کے ہجوم کے پیچھے کسی راہ فرار پر گامزن ہیں جو خود بھٹکے ہوئے ہیں۔ پچھلے پچھتر برس کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں ہم رائیگانی کے دائرے میں چکر کاٹ رہے ہیں جبکہ دنیا ہمارے اردگرد بہت تیزی سے بدل رہی ہے جیو پولیٹیکل محاذ پر نئی صف بندی ہو رہی ہے چین جسے دنیا نے اس کی حیران کن معاشی ترقی کی بنا پر سب سے بڑی فیکٹری قرار دیا اور یوں اسے مینوفیکچرنگ میں سپر پاورمانا اب ایک نئے انداز میں دنیا کی سیاست پر اثر انداز ہونے جارہا ہے۔ کل کے دشمن ، تلخ ماضی اور باہمی مخاصمت کی طویل راہداریوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے پر رضا مند ہو رہے ہیں ۔ تعلقات کے نئے امکانات تلاش کرکے تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے معاشی تقاضوں تکمیل کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔کیونکہ یہی وقت کا تقاضہ ہے حال ہی میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن کے معاہدے کی ڈرامائی تبدیلی نے دنیا کو چونکا دیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان امن کے معاہدے کے لیے بیک ڈور چینل پر کافی عرصہ سے کوششیں ہورہی تھی حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں چین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔چین نے امن ثالث کا کردار ادا کرکے دنیا کو بتایا ہے کہ وہ صرف دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری ہی نہیں بلکہ وہ دنیا میں امن کے ثالث کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کرے گا۔چائنا سعودی عرب اور ایران کے درمیان اتنا اہم کردار ادا کرنے کے قابل کیسے ہوا جبکہ امریکہ ابھی عالمی چوہدری کے طور پر موجود ہے اور اپنا کردار ادا کررہا ہے ۔ یہ پیغام خاص طور پر سپر پاور امریکہ کے لیے الارمنگ ہے۔ چین امریکہ کو آنکھیں دکھا رہا ہے کہ اب تم اکیلے دنیا کو کنٹرول نہیں کر رہے بلکہ میں بھی یہاں پر موجود ہوں۔ عالمی سیاست میں اتنا اہم کردار ادا کرنے کے پیچھے حقیقت یہ ہے کہ چین ایک ناقابل تسخیر معاشی قوت کے طور پر ابھرا ہے۔ چین کا سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ بہت اہم معاشی لین دین موجود ہے۔ایران کی کل انٹرنیشنل تجارت کا 30 فیصد چائنا کو جاتا ہے جبکہ سعودی عرب کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ چین میں ہے۔چین کے صدر شی زی پنگ جو تیسری بار صدر منتخب ہوئے ہیں اور ماؤزے تنگ کے بعد جدید چین کے دوسرے بڑے طاقتور حکمران کے طور پر تسلیم کیے جارہے ہیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سب جیو پولیٹیکل نیو ورلڈ آرڈر میں دنیا چین کی نظر کرم کے خواہش مند ہے۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن معاہدے میں امریکہ نے کوئی رول ادا نہیں کیا۔ یہ معاہدہ امریکہ کے لئے بھی ایک سرپرائز تھا کیونکہ امریکہ کے ایران کے ساتھ ڈائریکٹ ڈپلومیٹک ریلیشنز نہیں ۔ ایک سابق امریکی ڈپلومیٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو بائیڈن انتظامیہ کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو ثابت کرتا ہے کہ عالمی سپر پاور کے تخت پر اکیلا امریکہ براجمان نہیں۔ اب دنیا چین کو بھی دوسری پاور کے طور پر تسلیم کرے ۔ایران اور سعودی عرب نے اس معاہدے کے تحت دو مہینے کے اندر اپنے سفارت خانے ایک دوسرے کے ملک میں کھولنے کا عندیہ دیا اور کہا ہے وہ ایک دوسرے کی ساورنٹی کا احترام کریں گے اور آپس دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان امن معاہدے میں چین کا معاشی انٹرسٹ یہ ہے کہ چین ان دونوں ملکوں سے آئل امپورٹ کرتا ہے۔ اگر اس خطے میں جنگی حالات کی ٹینشن رہے گی تو اس نتیجے کے طور پر چین کی معاشی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ علاقے کے ملکوں کے لیے پہلے صرف امریکہ ہی ایک ایسا طاقتور ملک تھا جس کی حمایت اور تھپکی وہ لینا چاہتے تھے۔لیکن اب چین کی صورت ان کے پاس بھی آپشن ہے۔چائنا کا ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن معاہدے کی کوشش کرنا اس بات کی نشاندہی بھی ہے کہ جیو پولیٹیکل گلوبل آرڈر بدل رہا ہے۔یہ بدلتا ہوا گلوبل آرڈر صرف ایران اور سعودی عرب ہی کے درمیان تبدیلی نہیں لا رہا بلکہ کئی ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت تبدیل ہوگئی ملک پھر سے نئی سٹریٹیجک پوزیشنز سنبھالیں گے ۔ امریکہ کا گلوبل سپر پاور کا کردار اب سکڑ رہا ہے اور عالمی منظرنامے پر چین کا یہ نیا کردار ایک نئے ورلڈ آڈر کو ترتیب دے رہا ہے۔نئے گلوبل آرڈر میں دوسرے ملکوں کو بھی نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خطے میں پاکستان اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے انتہائی حساس اور اہم لیکن پاکستان کے اندرونی حالات دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا کہ ذمہ داران کو کچھ اندازہ بھی ہے کہ دنیا ان کی سرحدوں کے ساتھ نہ صرف بدل رہی ہے نئے چیلنجز کو قبول کرنے نئی صف بندی میں مصروف ہے جب کہ ہم اپنے پرانے جھگڑے نمٹنانے کی بجائے انہیں اور مزید الجھانے میں مصروف ہیں۔