حضرت علیؓ کا ایک لقب امام المتقین بھی ہے۔ یوم علی ؑ کی آمد آمد ہے ۔ امیرالمومنین حضر ت علی ؑ کی شہادت 21رمضان المبارک کو ہوئی ۔ 19رمضان المبارک کو آپ مسجد کوفہ میں نماز فجر پڑھا رہے تھے کہ کہ ابن ملجم نامی ایک خارجی نے آپ کے سر پر تلوار سے حملہ کر دیا جس کے دودن بعد آپ شہیدہو گئے ۔ حملہ کے بعد جو پہلا جملہ آپؓ کی زبان سے جاری ہوا وہ یہ تھا ’’رب کعبہ کی قسم میںکامیاب ہو گیا‘‘ اس سے کچھ دیر پہلے زندگی کی آخری رات گذار کے جب نماز فجر کیلئے گھر سے باہر نکلے تو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا ’’اے صبح گواہ رہنا میں نے ہمیشہ تجھے طلوع ہوتے ہوئے دیکھا اور تونے کبھی مجھے سوتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘ یوم شہادت علی پر اظہار عقیدت کے طور پر آپؓ کی سکھائی ہوئی دعائے جامعہ سے کچھ اقتباس پیش کرتاہوں ۔ اس دعا کو سمجھ کر پڑھنے والے روزہ دار پر معرفت الہٰی کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اُس ایک اللہ کے علاوہ کوئی اللہ نہیں۔ فقط اُسے جاننے ہی میں اس کی انتہائے رضا کا علم ہے۔ اُس اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں۔ اِس یقین کے بعد ہی اُس کی انتہائی رضا ہے۔ لاالہ الا ّاللہ۔ اس علم کے ساتھ اُس کی انتہائی رضا ہے ۔اور اللہ بہت بزرگ وبرتر ہے۔ اس کے جاننے میں ہی اسکی خوشنودی ہے۔ اللہ اکبر۔ کہ اس یقین کے بعد اس کی بے حد خوشی ہے ۔ اللہ اکبر کہ اس اعتقاد کے ساتھ اُس کی انتہائی رضاہے۔ الحمداللہ ۔ اس کے جاننے میںخدا کی انتہائی رضا ہے ۔ حمد خدا کے بعد خدا کی بے حد خوشنودیاں ہیں ۔ اللہ کی تمام تعریفیں اور یہ بات جاننے میںخدا کی انتہائی خوشی ہے۔ سبحان اللہ کہ اس عقیدے کے بعد اس کی سب سے بڑی رضا مندی ہے۔ اللہ پاک ہے کہ اس علم کے ساتھ ہی اس کی خوشی وابستہ ہے۔ اللہ کی حمد ،اُس کی تمام خوبیوں کے ساتھ تمام نعمتوں پر اور اللہ پاک ہے اور وہی لائق حمد ہے۔ اس علم میںاس معبود کی انتہائی پسندیدگی ہے۔ اللہ بزرگ وبرتر ہے۔ یہ اسی کے لئے صحیح ہے کہ کوئی اللہ نہیں سوائے اُس اللہ کے جو ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کا نور ہے۔ اور عرش عظیم کا نور ہے۔میں لاالہٰ الا اللہ کا ورد اتنا کروں کہ خدا کے علاوہ کوئی اندازہ نہ کرسکے۔ ہر ایک سے پہلے ، ہر ایک کے ساتھ اور ہر ایک کے بعد ہے ۔ اللہ اکبر اس انداز میں کہوں کہ جیسے اس کے سوا کوئی شمار نہ کرسکے ۔ وہ ہر ایک سے پہلے ، ہر ایک ساتھ، ہر ایک کے بعد ہے۔ سبحان اللہ اور یہ تسبیح اتنی جسے تیرے سوا کوئی شمار نہ کرسکے۔ تُو ہر ایک سے پہلے ، ہرایک ساتھ ، ہر ایک کے بعدہے‘‘’’خدا وند میں تجھے گواہ بناتا ہوں۔ اور تیری ہی گواہی کا فی ہے۔ تو میرے عقیدے کا گواہ رہنا کہ میرے نزدیک تیری بات حق ہے ، تیرے افعال حق ہیں۔ اور یقینا تیرے فیصلے صحیح ، تیری عظمت برحق اور یقینا تیرے معین کردہ برحق ہیں اور یہ کہ تیری تخلیق قیامت برحق ہے۔ توہی زندوں کو فنا اور مردوں کو زندگی عطا کرنے والا ہے۔ تو ہی قبروں کے مدفون اٹھائے گا اور یہ کہ تو ہی لوگوں کو اس دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیںاور یقینا تو وعدہ خلافی نہیںفرماتا‘‘ ۔ ’’خدا وند میں تجھے گواہ بناتاہوں۔ اور تجھے گواہ بنا ناہی کافی ہے ۔تو میرا گواہ ہے کہ توہی اور فقط تو ہی میرا پروردگار ہے اور یقینا محمد ؐ تیرے فرستادہ اور میرے نبی ہیں۔ جو دین تونے شریعت کی صورت میں پیش فرمایا تھا وہ میرا دین ہے اور بلا شبہ جو کتاب تو نے محمد ؐ پر نازل فرمائی وہی میرے لئے نور ہے۔ خدایا میں تجھے گواہ بناتا ہوں اور تیرا گواہ ہونا ہی کافی ہے۔ تو ہی میرے اوپر انعام کرنے والا ہے۔ تیرے علاوہ کوئی منعم نہیں ۔ تیری حمد ، اور یہ اقرار ہے کہ تیر ی نعمتوںسے نیک عمل تکمیل پاتے ہیں۔ لاالہ الا اللہ۔ اتنی مرتبہ جسے تیرا علم ہی شمار کرسکتاہے۔ اور اسی تعداد میں جسے تیرا علم ہی اندازہ کرسکتاہے ۔اور اتنا زیادہ جس پر تیرا علم ہی حاوی ہے۔ اتنی مقدار میںجسے تیرا علم معلوم کرسکتاہے ۔اور اتنا بڑھ چڑھ کر جسے تیرا علم ہی معلوم کرسکتاہے ۔ اللہ اکبر والحمداللہ اتنی تعداد میںجس پر تیرا علم محیط ہو جتنا تیرا علم جانتا ہو۔ اتنا زیادہ جسے تیرا علم شمار کرسکتا ہے۔ اس سے بڑھ چڑھ کر جسے تیرا علم اندازہ کرسکے۔ میں سبحان اللہ کہتا ہوں۔ اتنی مرتبہ جسے تیرا علم ہی محدود کرسکے ۔اس انداز میں جسے تیرا انداز ہ معلوم کرسکے اتنی مقدار میںجس پر تیرا ہی علم محیط ہوسکے۔ اس انداز میں جسے تیرا اندازہ ہی معلوم کرسکے۔ اتنی مقدار میںجس پر تیرا ہی علم محیط ہوسکے ۔ اس بڑی مقدار میںجسے تیری قدرت معلوم کرسکے۔ اُس کے علاوہ کوئی اللہ نہیں ۔ اور اللہ سب سے بزرگ وبرتر ہے ۔اور اللہ پاک ہے اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں ۔ بہت بلند مرتبہ ہے اللہ۔ اور بہت ہی ممتاز ہے۔ اور کوئی طاقت وقوت اللہ کے علاوہ ہے ہی نہیں۔ اوراللہ سے بچانے اور پناہ دینے والا خود اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ یہ ذکر، عددِجفت وطاق اور اُن کلمات الہٰی کے برابر، جو طیب وطاہر مکمل اور مبارک ہے۔ خدائے عظیم سچا ہے۔ اور اس کے سب رسول علیم السلام ہیں‘‘۔ آپ نے دیکھا کتنے سادہ اور آسان الفاظ میں حضرت علی ابن ابی طالب نے ایک مختصر سی دعاکے ذریعے دین اسلام کی پوری سمجھ اپنی تمام تر باریکیوں سمیت بیان کردی۔ توحید ، نبوت اور قیامت کو ایک مسلمان کیلئے دعا کے ذریعے جس دلنشین پیرائے میں چوتھے خلیفہ نے دلوں میں اُتار ا ہے یہ صرف انہی خاصہ ہے۔ ایک اور دعاکا درج کرنا بھی ضروری سمجھتاہوں ۔اس لئے کہ اس دعا اسم اعظم کا ذکر ہے۔’’نام سے اُس اللہ کے جو انتہائی مہربان اور بے حد رحم والا ہے ۔ خداوندہ تجھ سے اُس نام کا واسطہ دے کر سوال کرتاہوں، جو تیرے خزانہ غیب میں محفوظ ہے ۔ جو بڑا اور بہت بڑا ہے۔ بہت اہم اور بے حد بزرگ ہے۔ دلیل ہے، حق ہے، محافظ ہے، پاکیزہ ترین ہے۔ جو نور ہے اور نور سے ہے۔ اس کا نور نور کے ساتھ ہے۔ اور نور بالائے نور نور پرنور روشنی میں روشنی۔ وہ نور جس کے ذریعے تمام تاریکیوں کو چمکا دیا ۔ جس سے ہر سرکش دشمن اور نافرمان شیطان کو زیر کیا جاتاہے وہ تو تیرا جلیل القدر نام نامی ہے میں تجھ سے تیری عزت وجلال کا صدقہ کہہ کر مانگتا ہوں۔ اسم اللہ،اللہ کا اسم ذات ہے اور تمام ناموں میںسے معتبر ترین نام ہے۔اس کا مطلب ہے کائنات کا رب۔ قرآن مجید میں یہ اسم 980مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں ’’اللہ ایسا نام ہے کہ غیر اللہ کو اس نام سے پکار انہیں جاسکتا اور مخلوق میں کسی کا بھی یہ نام رکھا نہیں جاسکتا‘‘ یہی حال اسم محمدؐ کاہے۔ اس کا مطلب جس کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہو۔