مظفر گڑھ کے سردار کوڑے خان جتوئی نے غریب طلبہ کی تعلیم کیلئے ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ زمین وقف کی مگر غریب طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کے مقاصد پورے نہیں ہوئے، آج بھی غربت اور بیروزگاری کے باعث وسیب کے لوگ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلوا سکتے والدین بچوں کو مدارس میں بھیجتے ہیں یا پھر وہاں جہاں مفت تعلیم حاصل ہو، یہ تو بھلا ہو میاں شہباز شریف کا کہ انہوں نے وسیب کی غربت اور پسماندگی کو سامنے رکھ کر وسیب میں دانش سکولوں کا اجراء کیا، جس سے وسیب کے غریبوں کو فائدہ ہوا ہے، ایک اچھا کام سینئر صحافی ڈاکٹر صفدر محمود کی اعانت سے مظفر گڑھ میں ہوا کہ وہاں غوثیہ کالج کی بنیاد رکھی گئی جہاں غریب بچوں کو صحت مند ماحول اور اعلیٰ تعلیم کے مواقع میسر ہوئے مگر ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد یہ ادارہ مسلسل مالی مشکلات کا شکار ہے، اس ادارے نے پندرہ سال میں نمایاں تعلیمی خدمات سر انجام دی ہیں، ادارے کے پرنسپل ڈاکٹر طارق تعلیم دوست اور غریب پرور انسان ہیں، ملاقات کے دوران بتایا کہ مخیر حضرات کے تعاون سے ہم اس ادارے کو چلا رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مخیر حضرات آگے آئیں اور اس ادارے کو بچا لیں، اُن کا کہنا تھا کہ کالج میں بی ایس تک کی تعلیم دی جاتی ہے اور یہ کالج علوم اسلامیہ کا بہترین نمونہ ہے، کالج میں ٹوٹل 650 طلبہ ہیں، ان میں ساڑھے تین سو بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں، کالج میں انگلش و عربی لینگویج اور کمپیوٹر کورسز بھی کرائے جاتے ہیں، طالبات کو حفظ قرآن کے ساتھ ٹیکنیکل تعلیم بھی دی جاتی ہے، سلائی کڑھائی بھی سکھائی جاتی ہے، ڈیڑھ سو بچے اور بچیاں حفظ قرآن کر چکی ہیں۔ غریب و نادار طلبہ کو کھانا، رہائش، سٹیشنری، یونیفارم اور دیگر ضروریات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ کالج کا تین کینال رقبہ ہے، 75 کلاس رومز ہیں اور کالج کے اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، کالج کے سالانہ اخراجات ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہیں اور یہ سب کچھ مخیر حضرات کی مدد کے بغیر ممکن نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ کالج کو نہ صرف بچایا جائے بلکہ اس کی مزید مدد کرکے اسے ترقی و توسیع دی جائے، تعاون کے لئے خواتین و حضرات پرنسپل غوثیہ کالج مظفر گڑھ ڈاکٹر محمد طارق صاحب سے اس نمبر 0300-3312052پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ مظفرگڑھ کثیر آبادی کا ضلع ہے مگر ایک بھی یونیورسٹی موجود نہیں، اب کوٹ ادو بھی ضلع بن چکا ہے مگر وہ بھی تعلیمی سہولتوں سے محروم ہے، آج نئی حکومت آئی ہے، مرکز میں وزیر اعظم شہباز شریف اور صوبے میں وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف وسیب سے ہمدردی کے دعویدار ہیں۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ وسیب کی محرومیوں کا اُن کو مکمل ادراک ہے مگر وہ ان مسائل اور حالات کو بھی جاننے کی کوشش کریں کہ پنجاب حکومت کے پاس سردار کوڑے خان جتوئی کی ساڑھے بارہ ہزار سے زائد وقف اراضی موجود ہے، کیا وہ مظفرگڑھ میں سردار کوڑے خان یونیورسٹی قائم نہیں کر سکتے؟ وسیب میں محرومیوں کی طویل داستان ہے، اگر ہم نصف صدی پیچھے چلے جائیں تو 1974ء تک وسیب میں ایک بھی یونیورسٹی نہ تھی ، ذوالفقا علی بھٹو پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے 1975ء میں ملتان ، بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے یونیورسٹیاں منظور کیں ۔وسیب میں جہاں تعلیمی اداروں کی کمی ہے وہاں تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے ، بعض تعلیمی ادارے ہیں کہ نصف صدی سے اپ گریڈ نہیں ہو سکے ۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ حقائق کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوں گے کہ صرف ایک شہر لاہور میں جتنی یونیورسٹیاں ہیں، وسیب کے تمام اضلاع کی یونیورسٹیوں کو ملایا جائے تو اُس کا نصف بھی نہیں بنتا ۔ اب موقع ملا ہے تو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو میٹرو، اورنج اور انڈرگرائونڈ ریلوے ٹرین منصوبے کی بجائے تعلیم کی طرف توجہ دینا ہو گی اور وفاقی و صوبائی بجٹ میں تعلیمی بجٹ کو چار گنا بڑھانے کی ضرورت ہے، پنجاب کے ضمنی بجٹ میں اس طرف توجہ نہیں دی گئی، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا شمار اُن ملکوں میں ہوتاہے جہاں بجٹ میں تعلیم کیلئے بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے ، مرکز کے علاوہ ہم صوبائی سطح پر دیکھتے ہیں تو صوبوں کا بھی یہی حال ہے اور صوبوں میں یہ تفریق بھی موجود ہے کہ بعد اضلاع میں تعلیمی ادارے اور تعلیمی سہولتیںنہ کافی ہیں ، اُن کے مقابلے میں بعض اضلاع میں سہولتیں قدرے زیادہ ہیں۔وسیب مین تعلیمی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ وسیب میں جاگیردار وں کی تعلیم کے معاملے میں عدم دلچسپی اپنی جگہ لیکن حکمرانوں نے بھی تعلیمی سہولتیں دینے میں ہمیشہ بخل سے کام لیا۔ وزیر اعلیٰ کو وسیب میں سرائیکی اور پنجابی تعلیم کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی، پنجاب میں پنجابی پڑھائی جائے اور وسیب میں سرائیکی اور پوٹھوہار میں پوٹھوہاری پڑھائی جائے۔ وزیر اعلیٰ کی توجہ کے لئے خصوصی طور پر اس بات کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ میٹرک سرائیکی کا نصاب منظور ہے مگر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے ابھی تک کتاب پرنٹ نہیں کرائی اور نہ ہی سکولوں میں اساتذہ تعینات کئے گئے ہیں ۔اس کے ساتھ فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر سرائیکی کی کتاب کی طباعت کے لئے بھی پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ،اس کے ساتھ وسیب کے 95 فیصد کالجوں میں سرائیکی لیکچررز کی اسامیاں خالی ہیں ،وزیراعلیٰ اور حکومت پنجاب اس بارے خصوصی توجہ دے اور اگر فوری طور پر تمام کالجوں میں نہیں تو کم از کم اس سال میل اور فی میل زیادہ سے زیادہ کالجوں میں لیکچررز کی اسامیاں فل کی جائیں، پاکستانی زبانوں کو ترقی ملے گی تو اس سے پاکستانیت ابھرے گی، جب تک متبادل نہیں، انگریزی پڑھائی جائے اور اردو بھی رابطے کی زبان بن چکی ہے مگر پاکستان کے مختلف خطوں کی تہذیب و ثقافت اور پاکستان میں بولی جانیوالی مختلف زبانوں کو زندہ کرکے آنیوالی نسل کی یورپ تہذیب سے جان چھڑائی جائے۔