گزشتہ ہفتے ایک کالم میں سیرت نگاری کے آغاز و ارتقاء کے حوالے سے کچھ تحریر ہوا تو قارئین نے ابتدائی عہد کے چند معروف سیرت نگاروں کے حوالے سے جانکاری چاہی ، ماہ ِرمضان المبارک کی سعید ساعتیں ایسے مباحث کے لیے فطری رغبت اور ذوق کی حامل ہیں ۔ سیرت طیبہکی ترتیب و تدوین کے حوالے سے ابتدائی طور پر محمد بن اسحاق، محمد بن عمر الواقدی صاحبِ کتاب المغازی ، محمد بن سعدصاحبِ الطبقاتُ الکبری اور عبد الملک بن ہشام نمایاں اور ممتاز ہیں ۔ابو عبد اللہ محمد بن عمر ، ایک معروف عرب مورٔخ اور سیرت نگار جو الواقدی کے نام سے معروف ہوئے ، جس کی نسبت اس کے دادا الواقدالا سلمی کے نام سے ہے ، جو مدینہ کے بنو اسلم کے ایک گندم فروش عبد اللہ بن بریدہ کا غلام تھا ۔ واقدی130ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوا، جوکہ تابعین کا عہد ہے ، جبکہ سیاسی اعتبار سے بنو امیہ بر سرِ اقتدار تھے اور اس کے بعد بنو عباس ۔ واقدی نے عباسی تحریک کے بانی ابوالعباس ، ابو عبد اللہ السفاح اور اس کے بھائی ابو جعفر منصور کے عہد میں پرورش پائی ۔ واقدی نے اپنی تعلیم مدینہ منورہ میں ہی مکمل کی اور تابعین سے سماع کرتا رہا ، اس کی زندگی کا غالب حصہ مدینہ منورہ میں بسر ہوا۔ ازاں بعد 180ھ میں بغداد آیا ۔عباسی بادشاہ ہارون الرشید 170ھ میں حج کے لیے حجازِ مقدس آیا تو اسے مدینہ منورہ کی زیارات کے لیے ایک عالم اور گائیڈ کی ضرورت محسوس ہوئی ، بادشاہ کے وزیر ِ اعظم یحییٰ بر مکی نے واقدی کو یہ ذمہ داری تفویض کی ۔ یہ سفر محض حجازِ مقدس اور اس کے گردو نواح کے مقاماتِ مقدس کی زیارات تک محدود تھا ۔ واقدی طبعاً بے نیاز طبیعت کا مالک ، سخاوت و ایثار کا خوگراور علم وتحقیق کا رسیا تھا ۔ بنابریں کامیاب تاجر نہ بن سکا ، وہ گندم کی تجارت کرتا، جس میں اُسے زیادہ تر خسارے کا سامنا رہتا ۔ جس کے سبب نوبت تنگ دستی تک پہنچ جاتی ۔اس کے کاروبار کی دیکھ بھال بھی اس کا ملازم ہی کرتا، اس میں جو کچھ وہ واقدی کو دیتا وہ اسی پہ مطمئن رہتا ، اس کی آمدن کا زیادہ حصہ علمی اخراجات اور کتابوں کی خرید پر صرف ہوتا۔ اس نے اپنے تحقیقی امور کی انجام دہی کے لیے دو ملازم رکھے ہوئے تھے ۔ واقدی کے سوانح نگاروں نے کثرت سے یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ عید کے موقع پر واقدی شدید تنگ دستی اور مالی بحران کا شکار تھا ۔ واقدی کی بیوی نے اسے بچوں کی حالتِ زار کی طرف متوجہ کیا ۔ واقدی نے اپنے ایک ہاشمی دوست سے امداد چاہی ۔ اس نے ایک ہزاردرہم پر مشتمل مُہربندی تھیلی ارسال کی ۔ یہ رقم ابھی واقدی کو موصول ہوئی ہی تھی کہ اس کے ایک دوست نے مالی اعانت کی درخواست کردی ۔ گھر میں مشورے کے بعد دوسو درہم رکھ کر ، اس نے بقیہ رقم بمعہ تھیلی دوست کو بھجوادی ۔ تنگ دست دوست، جس کو اس رقم سے قرض ادا کرنا تھا ،نے یہ رقم اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے ارسال کردی ۔واقدی کا ایثار اپنی جگہ ، مگر وہ اندر سے بڑا رنجیدہ تھا، وہ رات کا اکثر حصہ مسجد میں گزار کر جب گھر واپس آیا تو، اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کی بیوی نے بتایا کہ آپ کے اُسی ہاشمی دوست کی طرف سے وہ تھیلی دوبارہ آئی ہے اور اس نے کہا ہے کہ مَیں نے ایک شخص سے قرض واپس لیا تو دیکھا کہ یہ وہی تھیلی ہے جو اس نے واقدی کو دی تھی اور اُسے پہچان لیا اور دوبارہ واپس بھیج دی ۔ خطیب بغدادی کے مطابق ، واقدی نے مشرق سے مغرب تک ، دنیا ئے اسلام کی معتبر شخصیات سے کسبِ فیض کیا ۔ اس فن میں کسی کے لیے ممکن نہ تھا کہ واقدی کی تحقیقات اور تصنیفات سے صَرفِ نظر کرتا۔ واقدی کو شہرت اگرچہ اس کے مغازی کے سبب ہوئی ، تاہم اس نے سیرت طیبہ ﷺکے مختلف پہلو ، جن کی طرف عام محققین کا رجحان نہ تھا ، کو احاطۂ تحقیق و تحریر میں لانے کی کوشش کی ۔ واقدی کو ایک یہ اختصاص بھی میسر تھا کہ وہ ایک سیرت نگار کے ساتھ ساتھ ایک فقیہہ اور قاضی بھی تھا ۔ مورٔخ او رسیرت نگار کومحض اس امر سے دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ کسی واقعے کا تاریخی ریکارڈ منصہ شہود پہ لائے،جبکہ فقیہہ اور قانون دان کی رغبت کا شعبہ یہ ہے کہ وہ اس واقعہ سے، جو جنگ کا ہے ، صلح یا معاہدے کا ،سے قومی مسائل اور بین الاقوامی تعلقات کی تخریج و تدوین کے حوالے سے نکات اور امور دریافت کرے ۔ واقدی عمر بھر تحریر و تقریرمیں مصروف عمل رہا ۔ اس کی کتابوں کی تعداد دو درجن سے زیادہ ہے ۔ واقدی منفر داسلوب اور طریقہ کارکا حامل تھا ، وہ صحابہ کرامؓ کے خاندانوں میں جاتا اور ان میں ایسے شخص کو تلاش کرتا ، جو حضورﷺکے غزوات کا علم رکھتا ہو، وہ لوگوں سے استفسار کرتا کہ آیا ان کے ہاں کوئی ایسا خاندان اور قبیلہ ہے ۔ جس میں سے کسی نے آنحضرتﷺکے ہمراہ کسی معرکے میں حصہ لیتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا ہوا، کیا کوئی شخص ہے ، جس کو حضورﷺکے ساتھ کسی جنگ میں ہمرکابی کا شرف میسر آیا ہویا اس کو حضورﷺنے کسی مہم میں روانہ کیا ہو ، اگر اُسے کسی ایسے فرد یا خاندان کا سراغ ملتا تو وہ اس کا قصد کرتا ، اُن سے واقعہ کی تفصیلات پوچھتا ۔ غزوہ اور معرکہ کے مقام پر ازخود جاکر موقع ملاحظہ کرتا۔ موصولہ معلومات اور جائے وقوعہ کے مشاہدات کا تقابل کر کے مکمل نقشہ کشی اور وقائع نگار ی کا اہتمام کرتا۔ اس کا امتیازیہ ہے کہ اس نے محض نظری سطح پر معلومات کو یکجا کرنے پہ اکتفا نہیں کیا ، بلکہ ہر مقام پر خود جا کر چیزوں کا معائنہ کیا ہے اور جغرافیائی عوامل کوبھی احاطۂ تحریر میں لاکر مکمل نقشے ترتیب دیئے ہیں ۔واقدی کے ایک سوانح نگار بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سخت گرمی کے موسم میں واقدی کے ایک ہاتھ میں مختلف دستاویزات کا مجموعہ، قلم ، دوات اور کاندھے پہ پانی کا مشکیزہ اور وہ بہت سبک رفتار ی سے رواں دواں تھے ۔ استفسار پر بتایا کہ آج ہی بعض صحابہؓ کے خاندان سے غزوہ حنین کے بارے میں کچھ نادر معلومات میسر ہوئی ہیں ، اس کی جانچ پرکھ کے لیے از خود حنین کے مقام کی طرف جارہاہوں تاکہ خود دیکھ کر ان کی تصدیق و توثیق کی بابت حتمی رائے قائم کرسکوں۔ اب یہ بات ذہن میںرکھنی چاہیے کہ حنین سے مکہ مکرمہ تقریبا ً اَسّی کلو میٹر کی مسافت پر ہے اور یہ کوئی گاڑیوں کا زمانہ تو تھا نہیں ۔ پیدل ، اونٹ یا گھوڑوں کی سواری کا دور ہے ، کم از کم آنے جانے میں ایک ہفتہ تو ضرور صرف ہوگا۔ گویا یہ پوری اسائنمنٹ کم ازکم ہفتہ ، دس دن پہ محیط ہوگی اور محض ایک راوی کی روایت اور اس کی تصدیق اور مقام دیکھنے کے لیے اس قدر تردّد اور تحقیق کا یہ عالم ہے ۔ واقدی محض ان روایات کی تحقیق اور تحریر ہی کا شائق نہ تھا بلکہ اپنی مرتبہ تحریروں کو یاد بھی کرتا ۔ گویا واقدی نے اس منہج پر اپنی معروف ’’کتاب ُالمغازی‘‘ نہایت مفصل اور مربوط انداز میں تیار کی ۔ جو مخطوطات کی شکل میں طویل عرصہ تک لوگوں کو دستیاب رہی ، جس سے ہر دور کے سیرت نگاروں نے استفادہ کیا ۔